گوادر میں جارحیت ثابت کرتی ہے یہاں جمہوریت کا کوئی وجود نہیں۔ بی ایس او

279

بی ایس او کے مرکزی سینئر وائس چیئرمین جیئند بلوچ اور دیگر نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ گوادر میں گزشتہ دو مہینے سے جاری ماہیگیروں کے دھرنے پر فوج کشی کی گئی ہے اور تین دن ہو چکے ہیں کہ گوادر کے ضلع بھر سمیت کیچ میں بھی سیاسی کارکنوں پر کریک ڈاؤن جاری ہے۔ سرکاری مشینری ایک پُرامن احتجاج کو بزور طاقت کچلنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مظاہرین پر شیلنگ، ہوائی فائرنگ اور لاٹھی چارج کی جا رہی ہے۔ سیکڑوں کارکنان گرفتاری بعد لاپتہ کر دیئے گئے ہیں۔ رابطے کے تمام ذرائع منقطع کیے جا چکے ہیں۔ گوادر میں مکمل بلیک آؤٹ کرکے گرینڈ آپریشن کیا جا رہا ہے، وہ بھی نہتے جمہوری سیاسی کارکنان کے خلاف۔

انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ انسانی حقوق، جمہوری اقدار اور ملکی آئین کی بھی سنگین خلاف ورزی ہے ۔ماہیگروں کو آئینی مطالبات کرنے کی پاداش میں سنگین سزائیں دی جا رہی ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ سمندر جو کہ ان کا واحد ذریعہ معاش ہے اسے لٹیروں سے محفوظ بنایا جائے اور غیر قانونی ٹرالنگ پر پابندی لگائی جائے، جوکہ ایک قانونی مطالبہ ہے۔ وہ منشیات کا خاتمہ چاہتے ہیں، بارڈر کے روزگار پر بندشوں کا خاتمہ چاہتے ہیں، لاپتہ افراد کی بازیابی چاہتے ہیں، پینے کےلیے صاف پانی مانگتے ہیں۔

“یہ تمام تر مطالبات ہر شہری کا بنیادی حق ہیں جن کی گارنٹی ملک کا آئین دیتا ہے، مگر عملی صورت میں یہ تمام حقوق چھینے جا چکے ہیں اس لئے بحالت مجبوری ماہی گیروں کو جمہوری تحریک کا آغاز کرنا پڑا ہے جوکہ پرامن انداز میں جاری تھا۔ مگر فوج کشی اور تشدد کے ذریعے دھرنا ختم کرنے کی کوشش کی گئی جس کے نتائج آج مکران بھر میں عدم استحکام اور اشتعال کی صورت میں نکل رہے ہیں۔”

انہوں نے کہا کہ ۲۶ دسمبر کی رات کو پولیس نے حق تحریک دو تحریک کے دھرنہ گاہ پر حملہ کرکے واجہ حسین واڈیلہ سمیت دیگر درجنوں کارکنان کو گرفتار کرنے کے بعد لاپتہ کر دیا ہے۔ یہ انتہائی افسوسناک امر ہے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کرنے والے سیاسی کارکنان کو ہی لاپتہ کیا جا چکا ہے۔ اس کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں ملوث تمام کارکنان کے گھروں پر چھاپے مار کر انہیں گرفتار کرنے کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔ نا صرف یہ کہ گرفتاریاں کی گئیں ہیں بلکہ ان کارکنان کے املاک کو بھی پولیس اہلکار نقصان پہنچا رہے ہیں، اہلخانہ کو حراساں کیا جا رہا ہے، شہریوں کی آئینی حقوق کی دھجیاں بکھیرے جا رہے ہیں۔

بی ایس او رہنماؤں نے کہا کہ ریاست کی جانب سے برسوں سے گوادر کی ترقی اور چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری کا چرچا اور بلند و بانگ دعوے ہم سنتے آ رہے ہیں مگر آج حقیقت عیاں ہو چکا ہے کہ ترقی کے تمام دعووں کے برعکس گوادر کے مکین صاف پانی کی مانگ پر سراپا احتجاج ہیں اور ریاست انہیں پینے کا پانی مہیا کرنے کے بجائے ان پر ڈنڈے برسا کر انہیں جیل و زندانوں میں ڈال رہی ہے۔

“ان تمام تر اقدامات سے ریاست کس طرح کا پیغام عام کرنا چاہتی ہے؟ کیا اس ملک میں بلوچ قوم کو جمہوری جدوجہد کرنے کا بھی کوئی حق حاصل نہیں ہے؟ گوادر کے مظاہرین پر جاری بربریت کو دیکھ کر یہ تاثر یقین میں بدلتا ہے کہ ملک کا جمہوری نظام برائے نام ہے، بلکہ یہاں محکوموں کو ڈنڈے کے زور پر غلام بنائے رکھنے کی پالیسی بدستور قائم ہے۔”

انہوں نے کہا کہ ہم آج کے پریس کانفرنس کے توسط سے یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ بلوچ نوجوان ریاستی جبر و تسلط کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے اور جمہوری جدوجہد کرنے والے کارکنان کی گرفتاری و ان پر تشدد کے خلاف بھرپور مزاحمت کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ پارلیمان میں موجود نام نہاد ممبران کو بھی یہ کہنا چاہتے ہیں کہ حکومت کی ملی بھگت سے جس طرح آپ اس کریک ڈاؤن کو سپورٹ دے رہے ہیں یہ پلٹ کر آپ ہی کے گلے میں پڑے گا، فطرت کے اس قانون کو آپ کبھی مت بھولیں۔

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت بلوچستان اور ریاست پاکستان فوری طور پر گوادر میں جاری کریک ڈاؤن کو بند کر دیں۔ تمام گرفتار کارکنان کو فوری رہا کریں۔ مواصلات کا نظام بحال کر دیں۔ تمام نقصانات کا ازالہ کریں۔ اور حق دو تحریک کے تمام مطالبات کو تسلیم کرکہ فوری عملدرآمد کریں۔

اور کہا کہ ہم حق دو تحریک اور گوادر کے عوام کو بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی جانب سے یکجہتی کا پیغام بھیجتے ہیں اور دیگر ترقی پسند تنظیموں سے بھی یکجہتی کی اپیل کرتے ہیں۔

“طلباء اپنے محنت کش بھائیوں، بہنوں اور بزرگوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے، چاہے ظلم کے کتنے بھی پہاڑ توڑے جائیں۔”