نہ رکنے والا قافلہ ۔ منیر بلوچ

307

نہ رکنے والا قافلہ

تحریر: منیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

کیا کیا تونے نہیں دیکھا، کیا کیا تونے نہیں کھویا لیکن پھر بھی یہ قدم ہے کہ رکتے ہی نہیں بس جانب منزل محو سفر ہیں- پابندی دیکھی، ٹوٹ کر بکھرنا اور پھر سنھبلنا دیکھا، جبری گمشدگی کا منظر دیکھا اور پھر مسخ شدہ لاشوں کا ریاستی تحفہ بھی دیکھا، ان گوہر نایاب فرزندوں کو بھی کھویا جنہوں نے سرزمین اور تیری مضبوطی کے لئے جان داؤ پر لگادیا لیکن پھر بھی ریاستی مشینری تمہیں روکنے میں ناکام رہی اور ہمیشہ ناکام رہیگی-

واقعی بابا تالپور سچ کہتے ہیں، بی ایس او بلوچ سماج کی روح ہے اور روح کبھی نہیں مرتی اور بی ایس او تا ابد یونہی اپنی سرگرمیاں جاری رکھے گی-

جسم فنا ہوجاتا ہے لیکن روح زندہ رہتی ہے اور جب تک بلوچ سماج میں یہ روح موجود ہے بلوچ سماج کی جڑیں مضبوط اور توانا ہوتی رہینگی اور ایسے تناور درخت کی مانند سایہ فراہم کرتی رہیگی-

بلوچ سماج میں بی ایس او ایک درسگاہ کی حیثیت رکھتا ہے- بی ایس او نے بلوچ سماج کو وہ قومی ہیرو عطا کئے ہیں جو آج بھی وطن بلوچستان کی خوفناک فضاؤں میں محو سفر ہو کر قومی حقوق کی جدوجہد کررہے ہیں- بی ایس او نے بلوچ سماج کو سیاست کی ابجد سے آگاہ کیا- بی ایس او نے بلوچ سماج کو ایک تحریری ادبی و سیاسی لٹریچر دیا جس نے وطن کے فرزندوں کو قومی جدوجہد کی حقیقت سے روشناس کرایا-

بلوچ سماج میں نہ بی ایس او کا ماضی فراموش کیا جاسکے گا اور نہ ہی حال اور نہ ہی مستقبل جب تک بلوچ سماج آباد ہے بی ایس او تا ابد زندہ رہے گا-

پچپن سالوں میں اگر پورے برصغیر کی تاریخ کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچ وطن کی آبیاری کے لئے بی ایس او کی جدوجہد اور قربانی پورے خطے کے سیاسی تنظیموں میں سب سے زیادہ ہے-

سال دو ہزار آٹھ سے لے کر دو ہزار بائیس تک سینکڑوں رہنماؤں اور کارکنان کی شہادت ، درجنوں رہنماؤں اور کارکنوں کی ریاستی زندانوں میں مقید ہونا ، پابندی کا شکار ہونا بھی بی ایس او کو نہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹاسکی اور نہ ہی ختم کرسکی کیونکہ یہ جڑیں عوام میں پیوست ہیں اور جن جڑوں میں عوام کی رگیں موجود ہو وہ کہاں ختم ہوسکتی ہے-

آج بھی بی ایس او کا کارواں منزل کی جانب رواں دواں ہے، آج بھی ریاست اور اسکے آلہ کاروں کا پروپگینڈہ تنظیم کو کمزور کرنے کی سازشوں میں مصروف عمل ہے۔ قافلے کو روکنے کی جبر کرنے کی سازش ،منفی پروپگینڈے کی سازش بھی قافلے کی کشتی میں سوراخ نہ کرسکی-کیونکہ یہ قافلہ رکنے و جھکنے والوں کا نہیں بلکہ یہ قافلہ سرفروشوں اور نظریاتی کرداروں کا ہے جو وطن کی خوشبو و مہک کو اپنے جسم اور روح میں محسوس کرتے ہیں-

مختصر یہ کہ بی ایس او کی مضبوطی بلوچ سماج کی مضبوطی ہے اور بی ایس او کی تنزلی سماج کی خوفناک تباہی پر منتج ہوگی- اب فیصلہ عوام کو کرنا ہے ،ان طالب علموں کو کرنا ہے کہ اپنے سماج کو ریاست کی پھیلائی ہوئی تباہی کے راستے پر گامزن کریں یا بی ایس او کو اپنے روح اور جسم میں محسوس کرکے اسے توانا اور طاقت فراہم کرنے کے لئے اس کارواں کا حصہ بنیں کیونکہ فیصلہ آپ کا ہے اور یہ قافلہ آزمودہ ہے کہ طوفان اور آندھیوں سے بھی یہ قافلہ گزر کر اس مقام تک پہنچا ہے اور یہ رکنے والا قافلہ نہیں-


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں