اس بیانیے کو تقویت مل رہی ہے کہ پرامن احتجاج سے کچھ حاصل نہیں ہوگا – سمی دین

330

برسوں سے ہماری پرامن و آئینی و جمہوری جہدوجہد خاص کر گمشدہ افراد کے لواحقین گذشتہ 45 دنوں سے پرامن دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔ وسری طرف ریاست ہمیں مکمل نظر انداز کرکے ہمارے ساتھ ان تمام بلوچ سیاسی جماعتوں کو قوم پرستوں کو بھی نظر انداز کررہا ہے جو اس وقت ریاست کے اپنے پارلیمنٹ میں یا پارلیمنٹ کے باہر ہیں۔

ان خیالات کا اظہار کوئٹہ ریڈ زون میں دھرنے کی رہنمائی کرنے والی وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی سمی دین بلوچ نے کی ہے۔

سمی دین بلوچ کا کہنا ہے کہ گذشتہ پینتالیس دنوں کے احتجاجی دھرنے میں ریاست اور ریاستی مشنری کے ایک معمولی سے معمولی چیز کو بھی نقصان نہیں پہنچا، بلکہ ہم خود اذیت سہہ کر بے بسی کا اظہار کررہے ہیں دوسری طرف ریاست ہمیں مکمل نظر انداز کرکے ہمارے ساتھ ان تمام بلوچ سیاسی جماعتوں کو قوم پرستوں کو بھی نظر انداز کررہی ہے جو اس وقت ریاست کے اپنے پارلیمنٹ میں یا پارلیمنٹ کے باہر ہیں اور لاپتہ افراد کی بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اسکا مطلب ہے کہ ریاست دانستہ و شعوری طور پر خود پرامن، جمہوری و آئینی جہدوجہد کو مکمل بے قدر و بے اثر ثابت کرکے بلوچوں کو یہ واضح پیغام دیتی ہے کہ آپ لوگوں کے پرامن، جمہوری و آئینی جہدوجہد اور مطالبوں کی کوئی اہمیت اور اوقات نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جب بھی کوئی خاندان یا سماج یا کوئی ریاست ہو اس میں تعصب، کمتر و برتر، تفریق، بدامنی، ظلم و جبر اور ناانصافی کا نظام ہو۔ حقوق، قانون اور انصاف چند مخصوص طبقوں کے لئے مختص ہو۔ جہاں سو روپے چرانے والے کو عدالت کے کٹہرے میں لایا جائے مگر ملک لوٹنے والے سے کوئی سوال بھی نہ کرے۔ جہاں طاقتور شخص کے ہلکے سے خراش آنے پر واویلا ہوتا ہو اور کمزور کی لاشوں پر بھی خاموشی ہو تو وہاں اس مظلوم طبقے کے لئے دو راستے رہتے ہیں یا تو خاموشی سے ظلم سہے یا پھر اس ظلم کے خلاف بغاوت کرے اور آج بلوچ بھی اس دوراہے پر کھڑا ہے۔

سمی دین نے کہا کہ ایک طرف بلوچ بے بسی اور مجبوری کے انتہاء پر کھڑا ہوکر یا تو امن، انصاف اور برابری جیسے بے معنی لفظوں پر بداعتمادی کی چادر لپیٹ کر مایوسی سے اپنے گھر میں خاموشی سے بیٹھنا ہے یا پھر اس ظلم کو ظلم کہہ کر اپنے حقوق اور برابری کیلئے آواز اٹھانا، اپنی بقاء کی خاطر بغاوت کا راستہ اختیار کرلینا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آج ریاست کا یہ رویہ، سلوک و برتاؤ تشدد اور بغاوت کی طرف بلوچوں کو راغب کرنے، تشدد کو جنم دینے اور بلوچ تشدد والی قوتوں کے موقف و دلیل کو ریاست صحیح اور حقیقت ثابت کرنے میں براہ راست ریاست خود ملوث نہیں ہے؟ جو قوتیں شروع سے بلوچوں کو بار بار بتا رہے ہیں کہ پرامن آئینی و جمہوری اور پارلیمانی جہدوجہد سے بلوچوں کو کچھ نہیں ملے گا صرف وقت ہی ضائع ہوگا دوسری طرف ریاست خود یہ ثابت کررہی ہے کہ پرامن جمہوری و آئینی یا پارلیمانی جہدوجہد کی یہاں کوئی اوقات و اہمیت نہیں ہے۔

سمی دین بلوچ نے کہا کہ کیا ہم جیسے ملکی آئین و قانون، برابری و انصاف پر یقین رکھنے والے لوگ دہائیوں سے سراپا احتجاج ہوکر سڑکوں پر دربدر و نظرانداز ہونے کے باوجود یہی سمجھیں کہ انصاف کا حصول پرامن طریقے سے ممکن نہیں ہے اور اس بے بسی کے عالم میں اپنے گھروں کو لوٹ جائیں ؟