گلی گلی ہے صدا ۔ محمد خان داؤد

365

گلی گلی ہے صدا

تحریر:محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

درد ملکیت ہوتا، تو وہ سب سے زیادہ امیر ہو تی
درد خوشبو ہو تی تو وہ مہک رہی ہو تی ہے
درد پھول ہو تے تو وہ سُرخ سُرخ رو ہو تی
درد پھول ہو تے، تو اس پر تتلیاں منڈلا رہی ہوتیں
درد دلاسہ ہوتا،تو وہ برستی بارش میں بھیگ نہیں رہی ہوتی وہ بہت سے دلاسے لیے گھر میں بیٹھی ہو تی
پر درد تو بارش ہے۔ اور وہ اس بارش میں بھیگ رہی ہے۔
درد تو آہ ہے۔چیخ ہے۔کراہ ہے
آہ بھی تو گونگی
چیخ بھی تو گونگی
کراہ!بھی تو گونگی!
اگر ان میں آواز ہوتی تو کیا ہمارے کانوں تک نہیں پہنچ پا تی؟ درد تو آگ ہے۔ جو سب کچھ جلا بھی دیتی ہے اور دھونہ بھی نظر نہیں آتا۔درد کی آگ میں پاند (دامن)جلتا ہے۔جسم جلتا ہے۔ ہاتھ جلتے ہیں،پیر جلتے ہیں،نین جلتے ہیں،دل جلتا ہے
سب کچھ جل جاتا ہے
”جلا ہے جسم تو دل بھی جل گیا ہوگا
ُکُریدتے کیا ہو،جستجو کیا ہے؟“
اس کے درد دامن گیر ہوا۔اور سب کچھ چھوٹ گیا۔
بابا کا ہاتھ چھوٹا،ماں کا دامن چھوٹا،گھر کا آنگن چھوٹا،گلی چھوٹا،گلی کے سہلی چھوٹی۔ دادی کی قربت چھوٹی،شال کی ہوا چھوٹی۔مشکے کی صبح چھوٹی،مشکے کی رات چھوٹی،ڈھلتا سورج چھوٹا،چمکتا چاند چھوٹا!
اب وہ جلتا ہوا پاند (دامن) لیے شال کی گلیوں میں بارش میں بھیگ رہی ہے
وہ ہماری ہے،وہ ہم میں سے ہے
وہ ہماری بیٹی ہے۔بانک ہے۔ادی ہے
پر پھر بھی شال کے چلتے لوگ اسے برستی بارش میں بھیگتے کیوں نہیں کہہ رہے کہ
”کاش اس سے کوئی تعلق ہو
اجنبی جیسا،دل کے درد جیسا“
ہم جانتے ہیں وہ ہماری سسئی ہے۔پر اب جب سسئی درد کے سفر میں آگئی ہے اور سسئی کے دامن میں درد دامن گیر ہوئے ہیں تو کیوں ہم اس کی آہ نہیں سن رہے؟
ہم اس سے دور تو نہیں ہے۔اور وہ ہم سے کب دور ہے؟
ہم اس کا جلتا پاند بھی دیکھ رہے ہیں۔ہم اس کے زخمی پیر بھی دیکھ رہے ہیں۔ہم اس کی رتجگے میں جلتی آنکھیں بھی دیکھ رہے ہیں۔ہم اس کے کبھی سفر میں،کبھی ٹھہرے رکتے پیر بھی دیکھ رہے ہیں۔ہم اس کے کبھی اُٹھتے ہاتھ اور کبھی ڈرپ زدہ ہاتھ بھی دیکھ رہے ہیں۔پھر بھی ہم اسے نہیں سن رہے
حالاں کہ
”گلی گلی ہے صدا،”اللہ ھو!“فقیر کے باعث!“
اگر یہ فقیر بھی گلی میں نہ آئے تو کون جانے کہ پنہوں جت کب لے گئے؟
اگر یہ فقیر بھی گلی میں نہ آئے تو کون جانے پنہوں کس رات اور کس راستے سے اُٹھا لیا گیا؟
اگر یہ فقیر بھی گلے میں نہ آئے تو کون جانے پائے کہ کتنی سسیاں کتنے پنہوں کی تلاش میں ہیں؟
اگر یہ فقیر بھی گلی میں نہ آئے تو درد کی گلی سونی ہو جائے
اگر یہ فقیر بھی مسافر نہ بنے تو کون جانے درد لا دوا ہوتا ہے
کاش اس فقیر کو یوں دیس کی گلیوں میں رُلتے دیکھ کر کوئی تو ایسی بھی صدا لگاتا
”مجھے اپنی پناہ میں لے لے
نہ بھٹکتا پھروں ہوا جیسا۔۔۔۔“
پر اب تو ہوا بھی نہیں بھٹک رہی۔اب ہوائیں ٹھہری ہوئی ہیں اور سسئی جیسی سمیل بھٹک رہی ہے
دربدر دل لیے
منتظر دیدلیے!
اور دیس کی موت مار بارشیں اسے بھگو رہی ہیں۔
وہ کوئی گھوتم تو نہیں۔کہ اسے گیان چاہیے
مُکتی چاہیے؟
وہ تو اس گھوتم سے بھی بہت آگے ہے
اسے بابا چاہیے
دل کو قرار چاہیے
شال سے کچھ دور
مشکے میں دل کا سکون چاہیے
بابا کی بہانوں میں محبت کا مزا چاہیے
یہی بات لیکر وہ گزشتہ چالیس سے بھی زائد دنوں میں شال کے آس پاس ”ریڈ زون“ میں صدا بنی ہوئی ہے ایسی صدا کہ
”گلی گلی ہے صدا،”اللہ ھو!“فقیر کے باعث!“
پر ہم ہیں کہ کچھ نہیں جانتے۔ہم ہیں کہ اندھے ہیں۔ہم ہیں کہ بہرے ہیں
برستی بارشوں نے اس کے جسم کو تو دھویا ہے
پر دل کو نہیں دھو پائیں ہیں
دل اب بھی درد اور بابا کی یادوں سے لبریز ہے
بارش برسیں اور ماتھے اور اداس کیمپ کو تو دھو گئیں
پر آنکھیں اب بھی رتجگے اور انتظاری کیفیت سے بھری ہوئی ہیں
ان بارشوں نے سمیل کی آنکھوں کے درد کو نہیں دھویا
بارشیں کتنی بھی برسیں،برستی بارشوں میں باڑ آجائے،پر پھر بھی بارشیں دل اور آنکھوں تک نہیں پہنچتی برستی بارشیں تو یادوں کو اور تیز کر جا تی ہیں اور جو آنکھیں نہیں رو تیں وہ آنکھیں بارش کی راتوں میں بارشوں کے دنوں میں رو تی ہیں
مجھے معلوم ہے سمی نہیں رو تی
پر مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ
بارش کی راتوں میں
بارش کے دنوں میں بس نہیں کرتی
برستی بارش کے قطرے
اور روتی آنکھوں کے آنسو مل کر ایک ہو جا تے ہیں
کون جان پائے گا کہ اداس چہرے کے گیلے نینوں پر
برستی بارش ہے یا آنسو؟
سمی بارش کے دنوں میں بہت روئی ہے
اور ہم ہیں کہ بے خبر ہیں
اب وہ بیمار ہے
ہم بے خبر ہیں
اس کے ہونے سے بھی ہم بے خبر ہیں
اور خدا نہ خاستہ کل اس کے نہ ہونے پر بھی ہم بے خبر ہونگے
ہم اتنے بے حس کیوں ہیں؟
کاش پیاری سمی کو دیکھ کر ہم اتنا تو اعتراف کرتے کہ
”نیا تو کچھ بھی نہیں ہے،یہ اعتراف ہے ہم کو
ہزار بار کہے کوئی،”یوں نہیں تھا،وہ یوں تھا““
پر بہت کچھ نیا ہے
بہت کچھ
اب سمی بار ہ سال کی نہیں
اب سمی رات کو بے فکری میں سوتی نہیں
اب سمی کی نیند ماری جا چکی ہے
اب دیس کی سب گلیوں کو سمی اپنے پیروں سے روندھ چکی ہے
کیا شال،کیا کراچی،کیا اسلام آباد؟
اب سمی سے اسکول چھوٹ گیا ہے
اب وہ اپنے گھر میں نہیں اداس کیمپوں میں رہتی ہے
اب اس کے ہاتھوں میں کانچ کی چوڑیاں نہیں.
سونے کے کنگن نہیں
پر ہاتھ میں دوائی سے بھری ڈرپ ہے
کیا ہم پھر بھی نہیں دیکھ رہے؟
اگر یہ فقیر بھی بس کر جائے
چپ کر جائے
خاموش ہو جائے
تو ہم یہاں پر ”دودا“فلم کا ریو لکھ رہے ہو تے
پڑھ رہے ہو تے
یہی تو فقیر ہے جس کی صدا بلند تر ہے
”گلی گلی ہے صدا،”اللہ ھو!“فقیر کے باعث!“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں