آواران لاوارث کیوں؟ – مھراج بلوچ

266

آواران لاوارث کیوں؟

تحریر۔ مھراج بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ضلع آواران رقبے کے لحاظ سے 21630 مربع کلو میٹر علاقے پر مشتمل ہے آواران کا پرانا کولواہ تھا، جس کو 1992 میں ضلع کا درجہ دے کر آواران کا نام رکھ دیا گیا، اس سے پہلے وہ ضلع خضدار میں شامل تھا، مغرب میں ضلع آواران کی سرحد ضلع کیچ کے علاقے کولواہ مادگ کلات سے ملتی ہے۔ آواران کے شمال مشرق میں ضلع خضدار اور شمال مغرب میں ضلع پنجگور واقع ہے آواران کے تحصیل مشکے سے خضدار کا تحصیل گریشہ تقریباً 20 کلو میٹر پر واقع ہے جبکہ آواران کے جنوب میں ضلع گْوادر کا علاقہ اورماڈہ اور مشرق میں ضلع لسبیلہ واقع ہے۔

اگر دیکھا جائے آواران بلوچستان میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے، جسکی سرحدیں بلوچستان کے مختلف اہم اضلاع کے ساتھ ملتی ہیں، کیچ، گْوادر، پَنجْگُور، لسبیلہ اور خضدار جیسے خوبصورت اضلاع کا پڑوسی ہونے کے علاوہ یہاں مختلف قسم کی فصلیں اُگ سکتی ہیں، جسمیں پیاز، انگور، انار، گندم، شامل ہیں، جبکہ کہیں کہیں کجھور کے خوبصورت باغات بھی پائے جاتے ہیں، لیکن آواران پسماندگی کے حوالے سے بلوچستان میں سب سے زیادہ ڈگر پر ہے۔

یہاں نہ پانی، بجلی، گیس اور نہ ہی دوسرے بنیادی سہولیات میسر ہیں، آج بھی قدیم زمانے کی طرح لوگ دور دور تک گہرے کنوؤں سے رسی سے پانی نکالتے ہیں۔

روڑ نہ ہونے کے برابر ہیں، کچّے روڑوں پر ایک گھنٹے کا فاصلہ پانچ گھنٹے میں طے کرنا پڑتا ہے۔

تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، جہاں کہیں اسکول کی عمارت ہیں تو وہاں اساتذہ موجود نہیں، ہسپتال محض چند کمروں کے بنائے گئے ہیں لیکن کچھ ڈاکٹرز نے پرائیوٹ کلینک کھول دیئے ہیں اور دیگر کوئٹہ اور کراچی میں بیٹھ کر ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، یہاں غریب لوگ بیماری سے کیوں ہی نہ مریں۔

آخر زہن میں سوال اٹھتا ہے کہ آواران کیوں پسماندگی کا شکار ہے؟ تو جواب میں پسماندگی کا کریڈٹ صرف ایک ہی خاندان کو جاتا ہے، کیونکہ چالیس سالوں سے اس خاندان کو آواران پر مسلط کیا گیا ہے، جنہوں نے آواران کے عوام کو محروم کیا ہے، بلیک میلنگ سْیاست کے تحت یہ آواران پر حکمرانی کر رہے ہیں، نوکریوں کو پیسے اور ووٹ کے عوض دے رہے ہیں، الیکشن کے دوران انہوں نے کئی ملازمین کو نوکری سے برطرف کرنے کی دھمکی دے کر انہیں ووٹ دینے کیلئے مجبور کیا جو قانوناََ ایک بڑی جرم ہے۔

آواران وہ ضلع ہے جہاں پر حق کی بات کرنے والوں کو مخلتف زرائع سے دبا دیا جاتا ہے، یہاں اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے کو ایک جرم قرار دیا گیا یے، ہمیشہ طاقت کے زریعے لوگوں کو ڈرایا دھمکایا گیا ہے، انہی وجہ سے آواران آج پسماندگی کے حوالے سے بلوچستان کا پسماندہ ترین ضلع ہے۔

میں آواران کے لوگوں سے خاص طو پر نوجْوان نسل کو کہنا چاہتا ہوں کہ وہ خاموشی کو توڑ کر ان نا انصافیوں کے خلاف آواز اٹھائیں، اپنے اندر شعور کو بیدار کریں، خاموش ہونے سے ہم اور زیادہ پسماندگی کی طرف جائیں گے، اپنے آنے والے نسل کیلئے جدوجہد کرکے انکے لئے آواز اٹھائیں، ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں