نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کا نواں سینٹرل آرگنائزنگ کمیٹی اجلاس منعقد

321

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کا نواں سینٹرل آرگنائزنگ کمیٹی اجلاس زیر صدارت مرکزی آرگنائزر ایڈوکیٹ شاہ زیب بلوچ منعقد ہوا، اجلاس میں مختلف ایجنڈے زیر بحث رہیں۔

رہنماؤں نے اجلاس میں بحث کرتے کہا کہ عالمی سیاسی صورتحال نیو ورلڈ آرڈر کی طرف جا رہی ہے۔ پاکستان میں سیاسی کشیدگی، اسٹیبلشمنٹ کی آپسی رسہ کشی، اور عالمی سیاست میں نئے بلاکس اور نئے معاہدات سمیت سرمایہ داری ایک بہت لہر آ گئی ہے جو کہ محکوم اقوام اور غریب طبقے کیلئے نیک شگون نہیں ہیں۔ اسی طرح روس یوکرین تنازعہ، افغانستان میں ایک دفعہ پھر ڈرون حملے، تائیوان تنازعہ نئے عالمی سرد جنگ کا آغاز کا پیش خیمہ ہوسکتے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کے اندر ایک دفعہ پھر مذہبی شدت پسندوں اور طالبانائزیش کو سامنے لائے جا رہے ہیں جس کا سب سے بڑا مقصد قومیت کے نام پر سیاست کرنے والوں کو کاونٹر کرنا ہے۔

رہنماوں نے کہا کہ بلوچستان بھر میں حالیہ بارشوں نے تباہی مچا دی ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوا ہے جس کی تمام تر ذمہ داری بلوچستان میں حکومت کرنے والے پارلیمنٹ پرست پارٹیوں سمیت ملکی اسٹیبلشمنٹ پر ہے۔ جو پچھلے ستر سالوں سے اس زمین پر راج کرتے آ رہے ہیں۔ 1948 سے اب تک بلوچستان میں حکومتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس جدید دور میں جہاں موسم کے حال کا مہینوں پہلے پتا چل جاتا ہے اور حالیہ بارشوں کے معمول سے ہٹ کر ہونے کے تھریٹس بھی کئی بار جاری ہو چکے تھے مگر پھر بھی حکمرانوں کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگی۔ ایک طرف حکومتی عدم توجہی اور دوسری طرف حکومتی سرپرستی میں ہی لینڈ مافیاز نے بارش کے پانی کے زمینی رستوں کو تنگ کر دیا ہے۔ نئی آبادیوں کو بھی انہی ندی اور نہروں کے قریب بسایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے پانی کا بہاو آبادی کی طرف بڑھ گیا ہے جس کہ وجہ سے حالیہ بارشوں میں قیمتی جانیں ضائع ہو گئی ہیں۔ جن چھوٹے چھوٹے ڈیموں کو پانی زخیرہ اور علاقوں کے زیر زمین پانی کے لیول کو بڑھانے کے نام پر بنایا گیا تھا ان سب کا مقصد محض کرپشن تھا۔ انہی ڈیموں کے ٹوٹنے سے بھی جانی و مالی نقصان ہوا ہے جس کی تمام تر ذمہ داری ملکی اداروں سمیت وہ ٹھیکدار ہیں جن کی ملی بھگت سے اس خون خوار ڈیموں کو تعمیر کیا گیا تھا۔ بلوچستان میں حکمران صرف وسائل کی لوٹ مار کی حد تک حکمرانی کر رہے ہیں جن کے پاس علاقائی مسائل سے نمٹنے کے لئے کوئی پروگرام نہیں۔ ایک طرف قحط زدہ علاقوں میں قحط سے نمٹنے کے لئے کوئی پروگرام ہے نا بارشوں کے پانی کو روکنے اور انسانی جانوں کو ضائع ہونے سے بچانے کے لئے کوئی جامعہ حکمت عملی ہے۔ کئی علاقوں میں ڈیمز کے ٹوٹ جانے سے، سیلابی ریلوں کی زد میں آنے اور پہاڈی علاقوں میں کھڈوں کے بھر جانے اور بندوں کے ٹوٹ جانے سے لوگوں کو جان و مال کے نقصانات کا سامنا ہوا ہے۔

رہنماوں نے انسانی حقوق کی پامالیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں اظہار رائے آزادی پر قدغن لگایا گیا ہے. ماورائے آئین جبری گمشدگی عروج پر ہے جبکہ حالیہ زیارت واقعہ کی وجہ سے لاپتہ افراد کے لواحقین میں خوف پایا جا رہا ہے کہ انکے پیاروں کو بھی مقابلے کے نام پر قتل نا کیا جائے اسی پچھلے اکیس دنوں سے لواحقین دھرنا دیئے بیٹھے ہیں لیکن حکومت بے حسی اور غیر سنجیدہ ہے. ایسی صورتحال پیدا کرنا ذہنی ٹارچر کے مترادف ہے جس کے خلاف ہر فورم پر سیاسی طور مزاحمت کرنے کی ضرورت ہے۔

رہنماوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ بلوچستان میں قبائلی تنازعات پر این ڈی پی کا موقف پہلے بھی یہی رہا ہے کہ ملکی ادارے اس مسئلے کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں جس کی واضح مثال حالیہ وڈھ اور خضدار کے واقعات ہیں جہاں شیخ قبیلے کے افراد کو نشانہ بنایا گیا۔ اس معاملے کی تحقیقات کے بعد پتہ چلتا ہے اس تمام واقعہ کی پیچھے بھی اداروں کی سرپرستی میں چلنے والا گروہ شامل ہے۔ پنجگور میں داد جان کے قتل کو بھی علاقائی تنازعہ بنانے کی سازش کی گئی تھی جسے بروقت علاقائی معتبرین نے واضح کر دیا تھا۔ بارکھان میں بھی قبائلی تنازعہ کی سازش کو وہاں کے نوجوانوں نے ناکام بنا دیا تھا جس کی پاداش میں پارٹی کے مرکزی رہنما ڈاکٹر جمیل بلوچ کو جبری طور گمشدہ کر دیا گیا تھا جو تاحال لاپتہ ہیں۔

آئندہ لائحہ عمل کے ایجنڈے میں سردار عطاللہ مینگل کی برسی کی مناسبت ریفرنس منعقد کرنے کا فیصلہ لینے کے ساتھ علاقائی و عالمی سیاسی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف فیصلے لئے گئے اور این ڈی پی کے مرکزی آرگنائزنگ کمیٹی کے ممبر زین گل کی ذاتی مصروفیات کی بنیاد پر دیئے گئے استعفے کو قبول کر لیا گیا۔