بلوچستان کو جناح نے آزاد نہیں کیا، ہم پہلے سے آزاد تھے – اسلم رئیسانی

1099

کسی چرواہے کا بکری گم ہوجائے تو وہ پریشان ہوتا ہے یہاں ہمارے برابر کے انسانی لاپتہ کردیئے گئے ہیں۔ لاپتہ افراد کو لاپتہ کرنا قابل نفرت عمل ہے۔ اگر خفیہ اداروں کا خیال ہے کہ ہماری اغواء کاری، قتل و غارت سے بلوچ قومی تحریک ختم ہوگی تو بہت مشکل ہے۔ شاید ہمارے چہرے پر انکی دہشت ظاہر ہو لیکن ہماری دلوں میں نفرت میں اضافہ ہوگا۔

ان خیالات کا اظہار سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم خان رئیسانی نے کوئٹہ میں گورنر ہاوس کے سامنے بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کے احتجاجی دھرنے میں اظہار یکجہتی کے موقع پر کیا۔

نواب اسلم رئیسانی کا کہنا تھا کہ لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنا بہت خطرناک عمل ہے، یہ ہمارے بچوں و بزرگوں کو شہید کررہے ہیں، دس، بیس سال انہیں جبری طور لاپتہ رکھا جاتا ہے، اس عمل سے افسوس کیساتھ ناراضگی، غصے و نفرت میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ چیزیں ملکر ایک خطرناک شکل اختیار کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں ان افراد کو کہنا چاہتا ہوں جو سرکاری مخبر ہیں کہ اس عمل کو ترک کردے کیونکہ ہم سرکار سے پہلے تم سے حساب لینگے۔ ان افراد کو ہم اپنا بھی نہیں کہتے ہیں جو چند پیسوں، ایک کارڈ یا کالی شیشوں والی گاڑی کیلئے اس طرح کے عمل کا مرتکب ہوتے ہیں۔ میں ان لوگوں کو کہنا چاہتا ہوں ہمیں تمہارے شکل سے بھی نفرت ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ ہم کمزور ہیں، شاید آج ہم کچھ نہیں کرسکتے ہیں لیکن جو نفرت پیدا ہورہی ہے اسکی انتہاء نہیں ہے۔ ایک شخص کے لاپتہ ہونے کیساتھ سینکڑوں افراد کھڑے ہوتے ہیں۔

نواب رئیسانی سے مظاہرین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج ان بچیوں کو اسکولوں میں، لڑکیوں کو یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہونا چاہیے تھا لیکن وہ اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے دھرنا دیئے ہوئے ہیں۔ ایک شخص کے لاپتہ ہونے کیساتھ اس خاندان سمیت ہزاروں افراد متاثر ہوتے ہیں۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ میں بھی ان خفیہ اداروں سے محفوظ نہیں ہوں، میرا بھائی بھی ان سے محفوظ نہیں ہے۔ میں واضح طور پر کہتا ہوں اگر مجھے کچھ ہوجاتا ہے تو اس کا ذمہ داری آئی ایس آئی ہے۔ لوگوں کو جبری طور پر لاپتہ کرنے والا بھی آئی ایس آئی ہے جنہیں میں کہتا ہوں کہ اس عمل کو ترک کردیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم یہ نہیں کہتے کہ جبری طور پر لاپتہ افراد کو رہا کردے بلکہ انہیں اپنے عدالتوں میں لاکر پیش کرے۔ وہ قصور وار ہوئیں تو سزا دیں نہیں تو رہا کردے لیکن جبری گمشدگی کے عمل کو کوئی پسند نہیں کرتا ہے۔

نواب رئیسانی نے کہا کہ انسانی حقوق کے عالمی تنظیموں سے مطالبہ کرتا ہوں کہ وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر مداخلت کرے۔ ہم اقوام متحدہ یا دیگر اداروں سے نہیں کہتے کہ ہمارے پیاروں کو بازیاب کروائے بلکہ انہیں جیل میں رکھ قانونی حقوق دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہی لوگ اس فیڈریشن کو کمزور کرکے نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اس فیڈریشن کے اندر، بلوچ، سندھی، پشتون و دیگر کو ان کے تاریخ حقوق دینا انکا حق ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ ہمیں مسٹر جناح نے آزاد کیا تو ہم پہلے سے ہی ایک آزاد ریاست تھے کسی نے ہمیں آزاد نہیں کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم آج بھی یہی کہتے ہیں کہ ہم اس فیڈریشن کا حصہ ہے لیکن یہی خفیہ ادارے لوگو کو اغواء کرکے، لوگوں کو سڑکوں پر قتل کرکے اس فیڈریشن کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔