لاپتہ افراد کا مسئلہ : میں کسی کو جوابدہ نہیں ہوں – سرداد اختر مینگل

777

گذشتہ روز سندھ اسمبلی کے سامنے لاپتہ افراد کے جبری گمشدگی کے خلاف بلوچ خواتین پر پولیس تشدد اور بچوں پر لاٹھی چارج کرنے کے بعد اس وقت بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اختر مینگل تنقید کی زد میں ہے۔

خیال رہے کہ اس وقت پاکستانی وفاق میں بلوچستان نیشنل پارٹی حکمران جماعت کے اتحادی ہے اور بلوچ حلقوں میں یہی بات زیر بحث ہے کہ وفاقی حکومت اس وقت بی این پی کی بیساکھیوں پہ کھڑی ہے، اس کے باوجود لاپتہ افراد کا معاملہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ان تمام چیزوں کے باجود بی این پی نے خاموشی کا روزہ رکھا ہوا ہے۔

بی این پی کے سربراہ اختر مینگل نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹویٹر پہ اپنے ایک مختصر بیان میں کہا جو بھی یہ دعوی کررہے ہیں کہ میں لاپتہ افراد کے معاملے میں خاموش ہوں اور یہ سب اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کررہا ہوں، مضحکہ خیز ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں ان کا جوابدہ نہیں ہوں چونکہ بہت سے حامی پوچھ رہے ہیں، وزیراعظم کو وقت دیا ہے اگر کچھ نہیں ہوا تو اس کے متعلق فیصلہ کریں گے۔

سینئر صحافی اور مصنف عزیز سنگھور نے ٹوئٹر پر اختر مینگل کے ٹوئٹ پر حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں (اختر مینگل) کو جواب دیا کہ 13 جون 2022 کو سندھ اسمبلی کے سامنے بلوچ خواتین پر تشدد کے ممکنہ پولیس ایکشن کے بارے میں 12 جون سے آگاہ کررہا تھا ۔

انہوں نے کہا کہ ان (اختر مینگل) کو ایک دن قبل کہا تھا کہ حالات کشیدہ ہوگئے ہیں۔ آپ کراچی سے بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے بات کرکے ان کی رہائی ممکن بنائیں۔ مگر آپ نے کچھ نہیں کیا اور یہ ایکشن ہوا۔

عزیز سنگھور نے مزید کہا کہ انہوں نے 24 مئی 2022 کو کراچی پریس کلب کے سامنے بلوچ خواتین پر تشدد اور ان کی رہائی کےلئے اختر مینگل کو واٹس اپ کے ذریعے رابطہ کیا،تاہم اختر مینگل نے انہیں جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔

بلوچ یکجہتی کمیٹی کراچی کے آرگنائزر اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے جدوجہد کی قیادت کرنے والی رہنماء آمنہ بلوچ نے اختر مینگل کے ٹویٹ کے جواب میں لکھا کہ “اختر صاحب! جب ہمارا دھرنا سندھ اسمبلی کے سامنے جاری تھا تو وہاں پر موجود عزیز سنگھور آپ کو واٹس اپ پر سندھ پولیس کے ممکنہ ایکشن کے بارے میں آگاہ کررہا تھا۔ اگر آپ بروقت بلاول بھٹو اور وزیراعلی سندھ سے بات کرتے تو یہ نوبت نہیں آتی، اب افسوس کرنا فضول ہے، سندھ پولیس نے ہم پر تشدد کیا، ہمارے بچوں کو مارا اور بچیوں کو انسپکٹر سجاد نے گندی گالیاں دی ، اب آپکا استعفیٰ بلوچ قوم کے لئے بے معنی ہے۔ جب تک ہماری سر کی چادریں پولیس والوں کے ہاتھوں میں نہیں آتی آپ لوگ خاموش ہوتے ہیں۔ تھانے میں ہم نے خود اپنی ضمانت دی تو ہمیں چھوڑا گیا۔ ہماری رہائی میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کا کوئی کردار نہیں ہے۔