‏واجہ اور ناراض بلوچ ۔ عندلیب گچکی

1254

‏واجہ اور ناراض بلوچ

عندلیب گچکی

دی بلوچستان پوسٹ

‏جب سے بلوچستان اور پاکستان کا الحاق ہوا ، وہ الگ بحث ہے کہ الحاق کیسے ہوا لیکن بلوچستان نے دن بدن اپنا سب کچھ کھونا شروع کیا ، اور بلوچستان کے اصل باشندے روز بہ روز رو بہ زوال ہوتے رہے ، کبھی ان کی شناخت کا مسئلہ تو کبھی اس زمین پہ موجود قدرتی وسائل پہ حق حاکمیت کا مسئلہ ، لیکن یہاں حق حاکمیت تو درکنار ان کو اس ملک کا ہی باشندہ سمجھ کر اگر تھوڑا بہت کچھ دیا ہوتا تو بھی شاید حالات ایسے نہ ہوتے ، لیکن مقتدر قوتوں کی نظر میں ہمیشہ بلوچ حقیر اور بے تعلیم ہی رہے ۔ اور جب بھی بات ترقی کی ہوئی ، جب بھی بات بلوچستان کے وسائل کی ہوئی اور جب بھی بات حق روزگار کی ہوئی تو یہی کہا گیا کہ بلوچ اس کے اہل نہیں اور انہیں چاہئیے کہ تعلیم حاصل کریں ، جب کہا گیا کہ ٹھیک ہے تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن کہاں اور کیسے ؟ تو کہا گیا کہ آپ لوگوں کے سردار اسکول اور کالجز یا یونیورسٹی بنانے کے حق میں نہیں ، اور جب بھی بات ہوئی ترقی کی تو کہا گیا ہم کیا کریں آپ لوگوں کے لیڈر ( پارلمنٹرین ) ہی کرپٹ ہیں سب کچھ خود کھانا چاہتے ہیں ،لیکن اس نے یہ کھبی نہیں سوچا کہ اگر سردار ترقی یا تعلیم کے خلاف ہیں یا لیڈر کرپٹ ہیں تو کیا یہ سردار اور یہ لیڈر ریاستی قانون ، قانونی بالادستی اور مقتدر قوت سے بالاتر ہیں ؟

اگر ہیں بھی تو کس لیے اور کس کی پشت پناہی پہ ؟ چلو اگر یہ سب درست بھی ہوں تو کیا جب کسی ملک میں طاقت منقسم ہو تو اس ملک میں امن و امان کے ساتھ رہا جاسکتا ہے ؟ سوال بنتا ہے کہ جب عوام کی تقدیر کا فیصلہ ایسوں کے ہاتھ میں دیا جاتا ہے کہ جو چاہے کرو ، جس طرح چاہو عوام کو کچل دو، روند ڈالو ، کھا لو سب کچھ ۔۔تو کیا یہ ملک پھر اس عوام کے ساتھ مخلص تصور کیا جاسکتا ہے ؟

‏حالات جب جب خراب ہوتے گئے تو ان کو واپس درست کرنے کے لیے مقتدر قوتوں کے پاس آپشن ہمیشہ طاقت ہی رہی ، لیکن اس طرح کے فیصلے لینے والے شاید ، شاید تو نہیں بلکہ حقیقتا بلوچ تاریخ سے نابلد اور نہ آشنا تھے ، اور ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب ملک دینار کو پیغام بھیجا گیا کہ اسلام قبول کرتے ہو یا تھمارے خلاف ہم جنگ کا اعلان کردیں تو ملک دنیار نے جواب دیا۔

‏آپ اسلام کی اگر صحیح طرح سے تبلیغ کرتے شاید میں متاثر ہوکہ قبول کرتا لیکن آپ نے مجھے جنگ کے لیے للکارا ہے تو میرا بھی جواب یہی ہے کہ آجاو ۔ اور یہ تو صرف ایک واقعہ ہے باقی بلوچ کی تاریخ بھری پڑی ہے اس طرح کے واقعات سے کہ وہ جنگ یا طاقت کے سامنے جھکے نہیں ہاں سینہ سپر ضرور ہوے ۔

‏لیکن مقتدر قوت بلوچ کی تاریخ سے ناواقف بلوچ کو چھوٹی چھوٹی مراعات کا لالچ دیکر بلوچ کے لیے سب کچھ قبول کرنے کا سوچ رکھتی ہے۔

‏جب جب بلوچستان میں بغاوت سر اٹھاتی رہی ایک طرف تو اسے کچھلنے کے لیے بے دریغ طاقت کا استعمال کیا گیا تو دوسری جانب انھیں لولی پاپ جیسی مراعات سے بہلانے کی کوشش کی گئی ،
‏سیندک ، ریکوڈک ، گیس اور دیگر قیمتی معدنیات سے مالا مال لوگوں کا سب کچھ چھین کے ان کو ایک کلو گھی اور ایک کلو چاول کا اگر خیرات دیا جائے اور خیرات بھی لاٹھی چارج کے اندر تو پھر حالات کا اس نہج پہ پہنچنا کچھ بھی عجیب نہیں ۔

‏سرکار ایک طرف طاقت اور دوسری طرف بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے کا ہمیشہ سے اعلان بھی کرتا رہا ، لیکن قومی دھارے میں لانے کے لیے وہ ہمیشہ ایسے لوگوں کو ثالث بناتا رہا جن کی نہ آزادی پسند تحریکوں کے سامنے کوئی عزت تھی اور نہ ہی عام لوگوں کی نظر میں۔

‏حالیہ ایک گانا ریلیز ہوئی ہے واجہ کے ٹائٹل سے ، ویسے تو گانا اتنا خاص یا اھم نہیں لیکن پھر بھی بلوچوں کی اکثریت نے سوشل میڈیا پہ اس گانے کا بائیکاٹ کیا ، یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس گانے نے سوشل میڈیا پہ بلوچوں کو مذید ناراض کیا ۔ کیونکہ گانے میں کوئی اسی اچھی بات یا امید تھی ہی نہیں کہ کوئی متاثر ہو ، دوسری طرف بلوچ نوجوانوں کو بجائے علم کی جانب آنے کے انھیں کھیتی باڑی کرنے کا کہہ رہے کہ آہو کھیتی باڑی کرو ، اور بلوچوں سے یہ بھی کہا جارہا کہ آپ فنا ہونے والے ہیں ہمیشہ نہیں رہنے والے ، پھر اسی گانے میں ہی بلوچوں سے کہا جارہا کہ تھمیں بھڑکایا جارہا ، لیکن اب وہ سب کچھ نہیں چلنے والا ۔۔۔ بلوچ سے یہ کہنا کہ آپ فنا ہونگے ایک قسم کی دھمکی ہے ، قومیں فنا ہونے کی ڑر سے قربانیاں دیتی ہیں ، یعنی یہ تو مذید بغاوت پہ اکسانے والی بات ہوئی ، بہرحال واجہ بلوچوں کے دلوں میں گھر کرنے کے بجائے الٹا انہی بلوچ فنکاروں کو بلوچوں کے دل سے نکال گئی ۔۔ یعنی جو ناراض تھے ان لوگوں نے تو اس کو رد کیا ہاں کچھ ایسے بلوچ جو پہلے سے جی حضور جی حضور تھے ان لوگوں نے ضرور اس کو سراہا ہے لیکن بات پھر سے وہی ہوئی کہ یہ جی حضور جی حضوروں کی تو کوئی حیثیت نہ سرکار کے دل میں ہے نہ ہی ناراض بلوچوں کے ۔

‏چلو دیکھتے ہیں آگے اور کتنے واجہ جیسی الٹی سیدھی چھوٹی چھوٹی حرکتیں ناراض بلوچوں کو راضی کرنے کے لیے کئے جاتے ہیں ۔۔ اور بلوچوں پہ اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں