درد کا رشتہ ۔ ماہ رنگ اعظم

478

درد کا رشتہ

تحریر: ماہ رنگ اعظم

دی بلوچستان پوسٹ

ہماری اپنی دنیا تھی، جہاں ہم بہن بھائی ساتھ اپنے دکھ درد بانٹ کر زندگی گزار لیتے تھے۔ اگر بلوچستان کی بات کی جائے تو دکھ درد اور بلوچستان کا گہرا رشتہ ہے۔ بلوچستان میں بسنے والے میری ماؤں اور بہنوں کا درد بہت گہرا ہے۔ یہ درد گہرا کیوں نہ ہو کیونکہ جوان بھائی کو زندانوں میں اذیت کے حوالے کرنا برداشت سے باہر کا لمحہ ہوتا ہے۔

آج جو درد میں محسوس کررہی ہوں، اس درد کو فرزانہ،سیما،سمی، فریدہ،سائرہ سالوں سے برداشت کررہی ہیں، میں اس درد کو صرف محسوس کرسکتی تھی۔ ان کے گرتے آنسو،بھائی کی جدائی کے لئے پریس کلبوں کے سامنے فریاد کرتی بازیاب کرو،بازیاب کرو کے نعرے دلوں کو چیر دیتی ہے_کمیشنوں اور عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے ان کے پاؤں پر چھالے پڑ گئے ہیں لیکن ان کے دکھوں اور درد کو محسوس کرنے والا کوئی نہیں۔

محسوس کرنے والے وہی ہیں، جو اس درد کو روزمحسوس کرکے جیتے ہیں اور انہی درد کو محسوس کرکے مرتے ہیں۔

میں خدا سے سوال کرتی ہوں کہ آخر کیوں یہ درد ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ ہماری ماؤں نے اس لئے ہمارے بھائیوں کو جنم دیا ہے کہ انہیں لاپتہ کیا جائے اور ہمیں اس درد سے گزارا جائے جو درد ماورائی مخلوق برداشت نہ کرسکے۔

میں خدا سے سوال کرتی ہوں کہ نرگس فیاض اور اسکے دودھ پیتے بچے کا کیا قصور ہے کہ انہیں اس درد کو سہنے کے لئے پیدا کیا گیا۔ اے خدا ہم میں اتنی ہمت نہیں کہ ہم کسی کو بد دعا دے سکیں کیونکہ جو درد ہم سہہ رہے ہیں ہم اس درد کو سہنے کی بد دعا کسی کو نہیں دے سکتے ہمیں پتہ ہے کہ وہ لوگ اس درد کو برداشت نہیں کرسکتے۔

ہم جبری گمشدگی کے شکار افراد کے خاندان صرف اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے دعا کرسکتے ہیں۔

میں لاپتہ شعیب اعظم کی بہن، خدا سے دعا کرتی ہوں کہ ہمیں اس دنیا میں دوبارہ لے جایا جائے، جہاں ہمیں کوئی درد محسوس ہو تو اس درد کی دوا موجود ہو ،جب کوئی تکلیف ہو تو کوئی کردار ہماری تکلیف کو دور کرے، یہ حقیقی دنیا بہت گراں گزرتی ہے کہ اس میں ہمارے اہم کردار غائب کئے جاتے ہیں اور ہماری درد کی دوا بھی موجود نہیں۔

ہم کس سے اپیل کریں ، میں نے صرف اس درد کو نزدیک سے محسوس کرتے زندگی گزاری ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ جب کسی کا بھائی لاپتہ ہوتا ہے تو اسکی بازیابی کے لئے کونسے طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ ایف آئی آر داخل کرنا، مظاہرہ کرنا ،پریس کانفرنس کرنا میرے لئے نئی باتیں ہیں۔

اب ان طریقوں کے لئے کون ہماری سپورٹ کرے، کون اس درد کو سنے گا، میرے بھائی کی بازیابی کے لئے کون میری آواز سنے گا۔ میں صرف التجا کرسکتی ہوں کہ میرے بھائی نے جرم کیا ہے تو عدالتوں میں پیش کرکے سزا دی جائے ہمیں در پہ در بھٹکنے پر مجبور نہ کیا جائے اور اپنی قوم سے گزارش کرتی ہو کہ اپنے ماؤں اور بہنوں کا ساتھ دیں کیونکہ آج ہم سب اس درد سے متاثر ہیں اور ہم سب کا رشتہ درد کا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں