نیلا، نیلا میرا من! ۔ محمد خان داؤد

262

نیلا، نیلا میرا من!

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

ڈی ایچ لارنس کی کہانی، عورت جو سوار ہوکر چل دی، میں ایک کردار سوال کرتا ہے کہ
“آسمان کا رنگ نیلا کیوں ہوتا ہے؟”
تو دوسرا کردار جواب دیتا ہے کہ
“یہ ہوا کا رنگ ہے۔ آنکھوں دیکھی باتوں کا رنگ ہے۔ آئی وٹنس کے دردیلی باتوں کا رنگ ہے۔ جو ہوچکا ہے اس کا رنگ ہے۔ جو ہونے والا ہے اس کا رنگ ہے۔ ان باتوں کا رنگ ہے جو اعتبار کے لائق ہوں پر جب باتوں پر کوئی اعتبار نہ کرے۔ ہر اس چیز کا رنگ ہے جو ہونے والی ہو۔ یہ ان سرفروشوں کا رنگ ہے جو چلے جاتے ہیں پھر کبھی نہیں لوٹتے۔ مگر جو ہمیشہ ہمارے درمیان موجود رہتے ہیں۔ یہ ان کا رنگ ہے جو ان کے چلے جانے پر موت جیسے انتظار سے گذر رہی ہوتی ہیں۔ یہ مرے ہواؤں کا رنگ ہے۔ یہ ان کا رنگ ہے جو مر کر بھی زندہ ہوتے ہیں اور زندہ رہ کر بھی مر رہے ہوتے ہیں۔ یہ وہ رنگ ہے جو فاصلے پہ کھڑا رہتا ہے اور دور کھڑے ہوکر ہمیں دیکھ رہا ہوتا ہے اور ہما رے قریب نہیں آتا اور جب ہم اس رنگ کے قریب جاتے ہیں تو یہ اور ہم سے دور ہوجاتا ہے۔ یہ ہمارے نزدیک نہیں آسکتا”

ہاں یہ نیلا رنگ اپنوں کی جُدائی میں جلنے کا رنگ ہے
میں جانتا ہوں یہ رنگ ماتم کا نہیں۔ یہ رنگ دکھ کا نہیں۔ پر یہ رنگ گِریا کا ہے۔
یہ رنگ آنسوؤں کا ہے وہ آنسو جو دل کے دریا سے نکلیں اور آنکھوں کے ساحلوں کو سیراب کر جائیں!
ہاں میں جانتا ہوں یہ رنگ مذہمت کا نہیں۔ یہ رنگ انقلاب کا نہیں
پر یہ رنگ ایلازوں اور منتوں کا ہے۔
جب درد کی کیفیت بڑھ جائے اور درد سونے نہ دے اور درد رونے نہ دے
تو ایسے دردیلے انسانوں کو دیکھ کر آکاش کا رنگ نیلا ہوجاتا ہے
نیلا رنگ بانہوں میں بھرنے والی محبت کا رنگ نہیں۔ پر یہ نیلا رنگ مسکین محبت کا رنگ ہے
اور ماؤں کی محبت مسکین ہوتی ہے،
ماؤں کی محبت بیچاری ہوتی ہے
ماؤں کی محبت چیختی گونگی ہوتی ہے
جو ماؤں کو رول دیتی ہے!
ماؤں کی محبت مسافر ہوتی ہے
ماؤں کی محبت دردوں کی دید ہوتی ہے
ماؤں کی محبت منتظر ہوتی ہے
ماؤں کی محبت وہ صلیب ہوتی ہے جس پر وہ آپ ہی مصلوب ہوتی ہیں
ماؤں کی محبت خالی پنے ہوتی ہے
جس پر ریا ست ہر روز درد لکھتی جاتی ہے
ماؤں کی محبت مکتب ہوتی ہے جس میں سوائے بوسوؤں کے سبق کے علاوہ کچھ نہیں
اب وہ نہیں جنہیں وہ مائیں جب بھی بوسے دیا کرتی تھیں جب وہ اپنے ہاتھوں میں کھلونے لیے پہاڑوں کی اُوٹ میں موجود گھروں کے صحنوں میں ماؤں کے سامنے دوڑا کرتے تھے اور وہ مائیں انہیں جب بھی ان کے گال چوما کرتیں تھیں جب وہ اتنے بڑے ہوگئے کہ روز آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر اپنے بالوں کو سنوارا کرتے تھے۔ وہ مائیں جب بھی ان کے گال چوما کرتی تھیں جب انہیں پہلی بار عشق ہوا اور ان ماؤں نے انہیں بدلا بدلا دیکھا۔ وہ مائیں ان کے گال جب بھی چوما کرتیں تھیں کہ وہ عشق محبوباؤں سے ہوتا ہوا سُرخ کتابوں تک پونچھا اور وہ مائیں ان کے بال جب بھی سنوارا کرتیں جب ان کا عشق محبوباؤں، کتابوں سے ہوتا ہوا دھرتی سے جڑ گیا!
اب ان مسکین ماؤں کے محبت کے مکتب اداس ہیں!
اب ان ماؤں کے ہونٹ سیراب نہیں
اب ان ماؤں کے ہونٹوں کے بند ایسے سوکھ گے ہیں جیسے لبِ مہران
اب ان ماؤں کے پیروں می چھالے اور سوکھے لبوں پر کربلا کہ جیسی حیرانی ہے
اب ان ماؤں کے پاس کوئی منزل نہیں۔ اب وہ مائیں بس مسافر ہیں۔ اب وہ مائیں نیلے رنگ کے درد میں جل رہی ہیں۔ اب ان ماؤں کے دلوں کا رنگ نیلا پڑ چکا ہے۔ اب ان ماؤں کے پیروں کے تلوؤں کا رنگ نیلا پڑ چکا ہے۔ اب ان ماؤں کے ہاتھوں کی ہتھیلیاں نیلاہٹ کا شکار ہوچکی ہیں۔
اب ان لبوں کو کوئی حسینی سبیل نہیں پلاتا
حسینی سبیل تو یزید تو ریاست کے ہاتھوں اُٹھا لی گئی
اب ان ماؤں کے ہونٹ خودکشی کرچکے ہیں
وہ مسکین مائیں ہیں اور وہ سوائے سفر کے کر بھی کیا سکتی ہیں سفر بھی ایسا جس سفر میں کوئی منزل نہیں
اس لیے جس کو درد نظر نہیں آتا ان کے لیے درد کا کوئی رنگ نہیں پر جو دردوں کی ما ری ہیں وہ نیلاہٹ میں ایسے رنگی ہوئی ہیں جیسے آکاش!
جیسی نیلا ساحل!
جیسے ساحلِ بے کراں!
جیسی نیلگوں پانی
پر کسی کو کچھ خبر نہیں
نہ سیا ست کو!
نہ انصاف کے برجوں کو
اور ان کی کیا ہی بات ہے جو اپنے جسموں پر کلف زدہ وردی پہنتے ہیں اور بڑے سے جو تے پہن کر ان ماؤں کو دکھی کر جاتے ہیں
ماؤں کے درد اور آنسو کوئی نہیں دیکھتا؟
اس لیے وہ درد سے نیلی ہو رہی ہیں اور ان کی آنکھیں ہی کیا پر ان کا من بھی نیلا نیلا ہو رہا ہے
کوئی نہیں جو ان کی طرف دیکھے اور اس انصاف کا کیا ہوا؟
جو انصاف ان ماؤں کو بلاتا تھا اور اب اندھا ہوا بیٹھا ہے اس انصاف کے لیے لوئیس کیرول کی یہ نظم ہی کا فی ہے جس میں وہ سب کچھ بتا رہا ہے کہ
“ڈبو کتے نے چوہے سے کہا
جو اس کو گھر میں آتا ملا
آؤ ہم دونوں
چلیں ہائی کورٹ
میں کرتا ہوں تمہارے خلاف
رٹ پٹیشن دائر
انکار جوکرو گے تم
میں نہیں مانو گا
پیشی ضرور ہو گی
مقدمہ چلے گا ضرور
تم مانو یا نہ مانو
اصل بات ہے جو پوچھو
تو وہ ہے یوں
کہ آج کام نہیں ہے مجھ کو کوئی
چوہا بولا کتورے سے
اے کتو رے ڈبو
ایسی پیشی، ایسا مقدمہ
جس میں کوئی وکیل نہ ہو
نہ ہو جیوری، نہ کوئی جج
اس میں بیکار وقت گنوانا
مفت کی بخ بخ، ہف ہف کرنا
بات کرو کوئی اور پیارے
چوہا بولا، میں ہوں گا
جج، میں جیوری
میں وکیل
رٹ پٹیشن
سنو گا میں ہی
اور
سولی
کا
حکم
سناؤں گا۔۔۔۔۔۔!!!”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں