ناصر امام ایک خاموش مزاج جہدکار ۔ سلال سمین

672

ناصر امام ایک خاموش مزاج جہدکار

تحریر: سلال سمین

دی بلوچستان پوسٹ

ناصر ایک خاموش طبیعت، خوش مزاج اور سادہ دل انسان تھا۔ ناصر نے ہمیشہ دوسرے لوگوں کی توقعات سے زیادہ کام کیا۔ وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ بر وقت فیصلہ کرنے کی مہارت رکھتا تھا۔ ناصر نے اپنی خاموشی کا اظہار نہیں کیا لیکن اُس وقت بھی یہ اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ اُس کی یہ خاموشی ایک آرام دہ راستے کے لیے نہیں تھی یہ خاموشی ایک کٹھن، دشوار، تکلیف دہ، بے سر و سامانی میں ایک محنت اور مشقت کرنے والے رستے کے لیے تھا۔

یہ خاموشی اُن ماؤں کے لیے تھی جن کے بچے زندانوں میں قید اذیتیں سہہ رہے ہیں جو آج بھی سڑکوں پر سسکیاں لیتی ہوئی دیکھی جاسکتی ہیں۔ ناصر کے والد صاحب نے اپنی حیاتی میں اشعار بھی لکھے جس میں سے ایک شعر مجھے ناصر کے عظیم کردار میں نظر آرہا ہے اور ناصر جان نے اپنے عظیم کردار سے اس کو ثابت بھی کردیا۔ انہوں نے لکھا تھا کہ

منا قول انت پہ بلوچی ننگ ءَ
کہ من شوداں وتی پیسری پولنگ ءَ

اس شعر کا مطلب ہے کہ میں بلوچی غیرت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے آپ پر لگا ہوا داغ دھوؤں گا۔ ناصر جان نے اپنے والد کی لاج رکھی اور بلوچی غیرت کی خاطر داغ غُلامی دھونے کے لئے اپنا عظیم خون پیش کیا۔

یہ خاموشی اُن بہنوں کے لیے تھی جو اپنے بھائیوں کے دیدار کو ترس رہے تھے، یہ خاموشی لوگوں کو اندھیروں سے نکالنے والی خاموشی تھی، یہ خاموشی آنے والی نسل کو ایک مشعل کی طرح اُجالا کرنے والی تھی۔ یہ ظاہر ہے کہ وہ ایک جنگجو خاندان سے تعلق رکھنے والا نوجوان تھا لیکن اُس کی تربیت اور اُس کی جوان مردی کو داد اُس کی خاموش جدوجہد نے دی تھی۔

جب ناصر اسکول میں اپنے کتابوں کے ساتھ ایک آزادی کی سوچ میں مگن تھا تب جاہل معاشرے نے اُن کے نظریات اور اُن کی جہدوجہد سے وابسطہ جنگجوؤں کو پسپا کرنے کی کوشش کی لیکن تاریخ ہمیشہ اس بات کی گواہ رہتی ہے کہ آپ کا ایمان مضبوط حکمت عملی کا پابند ہو تو آپ کو کوئی بھی اس جہد سے کنارہ نہیں کرسکتا۔

ناصر کی خاموشی ایک ظُلم کے خلاف ایک طوفان کا زور تھا، جس نے اپنے مقرر وقت پر چار دن کی شدید بھوک، سورج کی کھڑتی دھوپ، تاریک راتوں نے جب برف کی چادر اوڑھ لی تھی، جب حلق سے پانی کا ایک بوند نہیں اُترا تھا۔ وہاں ناصر اور اُس کی خاموشی کا زور برپا تھا اور اسی خاموشی نے سارے تکلیفوں کو اپنے سینے میں بارود کی طرح اُجاگر کرکے بزدل دشمن کی چار دیواری کو اپنے حوصلوں سے پسپا کرکے اپنے ماتھے پر بلوچستان کے رنگوں کا کفن اوڑھ لیا اور دشمن کو نہ صرف اپنی چھاؤنی سے بھاگنے پر مجبور کیا بلکہ دشمن اتنا شکست خوردہ ہوا کہ اپنے ہی کیمپ پر بمباری کرنے پر مجبور ہوا۔

ناصر ایک دم سے منظر عام سے غائب ہوگیا اور اپنے دوستوں سے کہا کہ وہ براستہ تُرکی یورپ جارہا ہے مگر یورپ کبھی نہیں پہنچا اور ایک ایسے منزل پر جاکر ڈیرے ڈالے کہ رہتی دنیا تک بہادری، جرات، عظیم قربانی اور دشمن کو تکلیف پہنچانے کے جب بھی چرچے اور قصے ہونگے تو ناصر جان کا نام ان قصوں اور تاریخ میں ہمیشہ رہے گا۔ دوست ناصر سے ہر وقت یہی سوال کرتے رہے کہ وہ کدھر ہے، کیا کررہا ہے جس پر اس کا جواب ہمیشہ براستہ تُرکی کی جغرافیہ بتا رہا ہوتا۔ آخر میں آکر ان کو یہ کہہ کر مطمئن کرتا رہا کہ میں اٹلی پہنچ گیا ہوں اور آگے جانے کی کوشش کررہا ہوں کہ جرمنی یا پھر برطانیہ جانے کا سوچ رہا ہوں۔

ہر کوئی یہی سوچھ رہا تھا کہ ناصر نے بھی کچھ دوسرے دوستوں کی طرح عملی کاموں سے بھاگنے کی ٹھان لی ہے۔ لیکن وہ لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ ناصر ایک عبادت گاہ میں اپنی عبادت میں مشغول ہے اور وہ عبادت جو خاموشی اور رازداری کے ساتھ کی جاتی ہے۔ ناصر اُس عبادت کا پابند تھا جس کا سکون صرف اور صرف قربانی میں ہے۔ چار دن اور چار راتوں کی شدید فائرنگ اور شدید بمباری میں ناصر اپنی عبادت کو عملی رنگ دے رہا تھا۔ جب ناصر کا ایک ٹویٹ آنکھوں سے گزرا تو اِس بات کا احساس ہوگیا کہ ناصر نے اپنی زندگی آنے والی نسل کے لیے قربان کردی ہے۔
بلا آخر یہی ہوا اور ناصر کی خاموشی نے دم تھوڈ دیا اور ایک آواز کانوں میں گونجھنے لگی کہ “رُخصت اف اوارن سنگت”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں