تہذیبی نرگسیت – ظہیر بلوچ

643

تہذیبی نرگسیت

تحریر: ظہیر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

تہذیبی نرگسیت مبارک حیدر کی کتاب ہے جو سانجھ پبلیکیشنز لاہور نے شائع کیا اس کتاب کی آٹھویں اشاعت 2020 میں ہوئی، اس کتاب میں کل 26 مضامین اور 142 صفحات ہیں۔

مصنف نرگسیت کے مفہوم کو صفحہ 56 میں بیان کرتے ہیں کہ نرگسیت ایک نفسیاتی اصطلاح ہے جس کے معنی خود پسندی کے ہیں۔ یہ اصطلاح یونان کی ایک دیومالائی کہانی سے ماخوذ ہے جو اپنی تعریف سننے و سنانے میں اتنا مگن تھا کہ اسے دنیا سے کوئی دلچسپی نہ تھی، دن رات اپنا عکس دیکھتا رہتا، بھوک اور پیاس سے نڈھال ہونے کے بعد بھی پانی کو نہیں چھوتا کیونکہ اس سے عکس کے ٹوٹنے کا ڈر تھا، کہتے ہیں کہ دیو مالا نے اسے نرگس کا پھول بنایا اسی وجہ سے خود پسندی کو نرگسیت کا نام دیا گیا ہے۔

نرگسیت کا مریض کبھی خود کو مریض نہیں مانتا، اپنا دفاع کرتا ہے اور جو اسے علاج کی ترغیب دیتے ہیں انہیں حاسد، گستاخ اور بدنیت ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ نرگسیت کی صحت مند علامتیں بھی ہوتی ہے خود اعتمادی اور عزت نفس جو ہر انسان میں موجود ہوتی ہے جسے اپنی شخصیت کی مثبت تعمیر بھی کہتے ہیں لیکن مریضانہ نرگسیت جس طرح تنظیم یا خاندان کے لئے شدید مسائل کا باعث بنتی ہے اسی طرح اجتماعی نرگسیت اقوام عالم کی علاقائی اور عالمی تنظیموں میں کشیدگی، اضطراب اور بالآخر تصادم کو جنم دیتی ہے اور انسانی برادری کی اجتماعی نشوونما کا راستہ روک کر کھڑی ہوجاتی ہے۔ )صفحہ نمبر 57(

کتاب کے صفحہ نمبر 58 سے لے کر 61 تک نرگیست کے مریضوں کی علامات اور خاصیتیں بھی اس کتاب کا حصہ ہے۔

اس کتاب میں پاکستانی معاشرہ اور اسلامی معاشرے میں پائے جانے والی نرگیست جسے مصنف تہذیبی نرگسیت کا نام دیتے ہیں جس نے اس معاشرے کی تنقیدی صلاحیتوں کا گلا گھونٹ کر نرگسیت کا مریض بنادیا ہے جس کی وجہ سے یہ معاشرہ مسلم امہ کو سب سے افضل اور دنیا پر حکومت کے لئے مستحق قرار دیتا ہے یہی نہیں بلکہ دنیا و آخرت کی فضیلت کا استحقاق بھی مسلمانوں کو مانتا ہے۔ ان کی نظر میں اسلامی طرز زندگی میں انسان غلامی سے آزاد ہو کر اللہ کی عبادت شروع کرتے ہیں اور صرف اللہ کے آگے جھکتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں کی تکلیف کا حل صرف اسلام کو زندہ کرنے میں ہے۔ لیکن ان مریضوں کو یہ نظر نہیں آتا کہ اسلام نے غلاموں کی تجارت کو حرام قرار نہیں دیا بلکہ غلام اور لونڈیاں رکھنے کی اجازت دی ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسلام غلامی سے آزاد کرکے اللہ کی اطاعت پر لگا دیتا ہے تو کیوں لوگوں کو غلام بنانا اسلام میں جائز ہے۔

اسلام کو زندہ رکھنے کے لئے ایسے لوگوں کی خدمات کو حاصل کیا گیا جو اسلام سے واقفیت نہ رکھتے تھے، جہاد کے نام پر، دو قومی نظریے اور بھارت دشمنی کے نام پر لوگوں کو ورغلایا گیا اور انہی سازشوں کو اسلام کے لبادے میں اوڑھ کر کچھ اور مقاصد کے حصول کو ارزاں بنایا گیا۔

تہذیبی نرگسیت کے شکار معاشرے میں اختلاف رائے کو طاقت کے زور پر دبایا جاتا ہے، مصنف کہتے ہیں کہ دین سے عقیدت ہماری سوسائٹی اور مسلح افواج کی نفسیات میں کندھی ہوئی ہے۔ جس پر اعتراض کرنے یا اختلافی نظریات پیش کرنے کا کوئی قابل ذکر واقع ہماری قومی سطح پر رونما نہیں ہوا اور اگر ہوا تو اسے سختی اور تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ حتیٰ کہ اگر کسی دوسرے ملک میں بھی اسلام سے متعلق کوئی مخالفانہ رویہ سامنے آیا تو ہمارے ہاں شدت سے احتجاج کیا گیا۔ )صفحہ نمبر 43(

نرگسیت حس انصاف کو ختم کرکے تکبر کو جنم دیتا ہے اور تکبر مفاہمت، برابری اور جمہوری رویوں کو ختم کردینے کا باعث بن جاتا ہے۔ انسان کو اپنے گناہ بھی ثواب نظر آتے ہیں۔ اور تہذیبی نرگسیت اجتماعی طیش کی شکل اختیار کرلیتا ہے، تہذیبی نرگسیت کا شکار معاشرہ صرف قرآن اور حدیث کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہیں دوسرے علوم کی ضرورت نہیں رہتی، مصنف کہتے ہیں کہ اسلام ان کے لیے ایک ایسے لائسنس کی طرح ہے جس کی رو سے انہیں دوسروں پر ہر طرح کے جبر کا حق حاصل ہے۔ )صفحہ 73(

نرگسیت کا اثر ان پر اس طرح سرایت کرچکا ہے کہ وہ یہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ ہمیں جو حقوق حاصل ہے وہ دوسروں کو ہر گز نہیں دیئے جاسکتے۔

سازش کا خوف، احساس مظلومیت کی وجہ سے وہ لوگوں کو اپنے سے کم تر حالت میں رکھنے کے لئے دبانا چاہتے ہیں اگر تنظیموں میں اعلیٰ عہدے پر فائز لوگ نرگسیت کی بیماری میں مبتلا ہو تو تنظیموں کے دوسرے کارکن ان سے اثر انداز ہوجاتے ہیں جو رسی کشی، بغاوت اور ٹوٹ پھوٹ کو جنم دینے کا باعث بنتی ہے۔

نرگسیت کا شکار انسان خوش فہمی کا شکار ہوتا ہے۔ کتاب کے تناظر میں اگر پاکستانی معاشرے کی بات کریں تو انکی خوش فہمی اپنے انتہا کو چھو رہی ہوتی ہے اور یہ اسی خوش فہمی کی بنیاد پر ایسی تاویلیں پیش کرتے ہیں کہ جن کا نہ سر نہ پاؤں، یہ صرف عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے پیش کی جاتی ہے۔

مثلاً پاکستان کی ایک آواز پر دنیا بھر کے مجاہدین امریکہ کے خلاف لڑنے کے لیے جمع ہوجائے، دوسری پاکستانی آئی ایس آئی ان نوجوانوں کی پندرہ دنوں میں ایسی تربیت کرے گا جو امریکی پندرہ سالوں میں نہ کرسکے۔

تہذیبی نرگسیت کا شکار معاشرہ صرف اسلام کو ہی تہذیب و تمدن کا سہرا باندھتی ہے حالانکہ اسلام سے قبل بھی چینی، ہندوستانی، مصری اور دیگر کئی تہذیبوں کا وجود تھا۔ صفحہ نمبر 92 میں کہتے ہیں کہ سب تہذیبیں گمراہ صرف اسلام پر ایمان لانے سے معاشرے ہدایت پر، غیر مسلموں کے جسم بھی ناپاک، ایمان لانے والوں کو ان سے بو آتی ہے، ان کی روحیں اور ذہن بھی ناپاک، ان کی سوچ مکروہ، ان کی غذا گندی اور حرام۔

کتاب کے مصنف کے مطابق تہذیبی نرگسیت کا شکار معاشرہ کی ذہنی پستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اختلافی نقطے کو برداشت کرنے کے بجائے ایسے ماحول کو بدنیتی قرار دیکر خاموش کرانے کی کوشش کی جاتی ہے اور اپنی خود پسندی کو قائم کیا جاتا ہے۔ اسلام کو ہر دین پر غالب سمجھا جاتا ہے، ایک ایسا ماحول قائم کیا جاتا ہے جہاں دوسروں کے سر جھکانے کو اپنی عزت و تکریم بڑھانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ دنیاوی زندگی کو بیکار اور موت کو اصل بادشاہی سمجھا جاتا ہے۔ ایسی گمراہ کن باتیں پھیلائی جاتی ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگ دنیا میں جو چاہیں کرلیں اگلے جہاں میں مسلمان جنت ہی میں جائینگے۔

مصنف کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے ہندوؤں کو تہذیب سکھائی، لباس، مساوات، شرم وحیااور طلاق کا تصور دیا، ہندؤوں کو زندگی کا سلیقہ مسلمانوں نے ہی سکھایا، انہیں پہننے کا، اوڑھنے کا قرینہ آتا تھا نہ کھانے پینے کی تمیز )صفحہ نمبر 107(

کتاب کے صفحہ نمبر123 سے لے کر 137 تک جہاد فی سبیل اللہ کے نام پر ایک مضمون ہے اس مضمون میں مصنف کہتے ہیں کہ جہاد صرف دین پر پابندی لگانے والوں کو بے اثر کرنے یا ختم کرنے کے لئے کیا جاسکتا ہے لیکن تہذیبی نرگسیت کے شکار معاشرے میں جہاد کی تعریف تبدیل ہوجاتی ہے مثلاً بھارت نے پاکستان کی طرف بہنے والے دریاؤں کا پانی روک لیا ہے تو اس علاقے کو واپس لینے کے عمل کو جہاد تصور کیا جاتا ہے۔

صفحہ نمبر 125 میں رقمطراز ہے کہ افغانستان پر امریکہ کا تسلط، فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ دنیاوی معاملات ہیں۔ کیونکہ نہ افغان اور فلسطین کے عوام اسلام کی تحریک و ترویج کے لئے جی رہے ہیں نہ ہی امریکہ اور اسرائیل دین اسلام پر عمل کرنے سے مسلمانوں کو روکتے ہیں۔

ضیا الحق کی حکومت میں میڈیا اور ریاست کی پوری مشینری ایسے قوتوں کو منظم کرنے پر لگے ہوئے تھے اور ان کے لئے جذباتی مذہبی نعروں کا سہارا لیا گیا۔

کتاب کے صفحہ نمبر 140 سے 142 تک نئے ایڈیشن پر چند باتیں کئی گئی ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں