ماں ماتم نہ کرے تو پھر کیا کرے؟ ۔ محمد خان داود

347

ماں ماتم نہ کرے تو پھر کیا کرے؟

محمدخان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

ماں ان دنوں کا حساب نہیں رکھتی تھی جب وہ گھر سے یونیورسٹی،یونیورسٹی سے ہاسٹل اور ہاسٹل سے احتجاجی مظاہروں میں جاتا کبھی گھر لوٹ آتا کبھی ہاسٹلز میں ہی ٹہر جاتا ماں کے پاس ان دنوں کا کوئی حساب نہیں، ماں کے پاس ان دنوں کا بھی کوئی حساب نہیں جب وہ کئی کئی روز گھر نہیں آتا اور اس کا پتہ پوچھتے ماں کو معلوم ہوتا کہ وہ کراچی میں لطیف جوہر اور بانک کریمہ کے ساتھ گم شدہ ساتھیوں کے لیے علامتی بھوک ہڑتال پر بیٹھا ہے۔ ماں ان دنوں کا بھی حساب نہیں رکھا جن دنوں میں اس نے اپنے ہاتھوں سے کئی پمفلٹ لکھے اور شال کی کچی دیواروں اور کراچی کے میلی دیواروں پر چسپاں کیے۔

ماں نے ان دنوں کا بھی حساب نہیں رکھا جن دنوں وہ مہینوں مہینوں گھر کو نہیں لوٹتا اور ماں بھی اس کی طرف سے بے فکر ہو کر پہاڑوں کے دامنوں میں کچے گھر میں اس کے بچوں سے دل بہلایا کرتی!
ماں کے پاس ان دنوں کا بھی کوئی حساب نہیں کہ اس نے کتنے دن بھوک ہڑتالی کیمپ میں گزارے
اور کتنے دن علمی مذاکرے میں؟
ماں نہیں جانتی کہ دیس کی بات کرتے کرتے وہ بلوچستان کے کس کس شہر گیا اور کون کون سے منچ پر بیٹھا اور دیس کی محبت کی باتیں کیں؟
ماں یہ بھی نہیں جانتی کہ دوران سفر اس کے کپڑے پسینے سے بھیگ جاتے یا دیس کی مٹی سے؟
مائیں تو لاعلم ہو تی ہیں اسی لیے وہ مائیں ہو تی ہیں
اگر وہ عالم ہو تی تو وہ مائیں نہ ہو تیں وہ دانشور ہو تیں
لاعلمی ہی دانشوروں اور ماؤں میں فرق پیدا کرتی ہے
تو اس کی ماں بھی لاعلم ماں تھی دیس کی تمام ماؤں کی طرح!
ماں کے پاس ان دنوں کا کوئی حساب نہیں جن دنوں میں وہ گھر کے ایک کونے میں بیٹھ کر وہ نئی کتاب پڑھتا جو وہ کراچی سے لاتا یا شال سے
ان دنوں ماں کے پاس حساب ہیں بس محبت ہوا کرتی تھی جو وہ اپنے بیٹے پر نچھاور کرتی
دانشور کہتے ہیں کہ جب ماؤں کے گھروں میں پوتے آجاتے ہیں تو ماؤں کو بیٹوں سے پہلے والی محبت نہیں رہتی،افسوس اس ماں کے پاس اس محبت کا بھی کوئی حساب نہیں وگرنہ اس ماں سے ضرور پوچھتے کہ
”اماں آپ کو زاہد سے محبت ہے یا اس کے بیٹے سے؟!“
جب محبت تھی اب تو بس حساب ہیں
جب وہ گھر پر ہوتا تو کون کم بخت حساب رکھتا کہ وہ کتنے دنوں سے گھر پر ہے
اب جب وہ گھر پر نہیں عقوبت خانے میں ہے تو ماں پاگلوں کی طرح سب کو بتا رہی ہے کہ
”وہ آٹھ سالوں سے اذیت خانوں میں ہے!“
ایک بیٹے کی جدائی ماں کوحساب دان بنا گئی ہے
وہ ماں کیا کرے جس کا دل بس
ایک درویش کے ٹوٹے کشکول کی طرح ہے
جس میں آنسو بھی بہہ جاتے ہیں۔دلاسے بھی بہہ جاتے ہیں پر درد اور فکر دامن گیر ہے درد اور فکر اس ٹوٹے کشکول سے نہیں کرتے اور ماں بے چین ہو کر سب کو یہ بتا رہی ہے کہ اسے گم ہوئے اُٹھائے اذیت خانوں میں پہنچائے عقوبت خانے کی نظر کیے آٹھ برس ہوچکے ہیں
اور یہ آٹھ برس کتنے ہو تے ہیں؟ہم شاید ایسے لکھ دیں ”آٹھ برس“۸ برس“!
پر جس ماں کے سینے ان آٹھ برس کی تمام شامیں،تمام صبحیں اور طویل تمام راتیں ٹھہریں ہیں وہ ماں ہی جانتی ہے کہ یہ آٹھ برس کیا ہیں؟!
”وہ میرا چاند،ہے تو مگر آدمی
وہ حسنِ عالم ازل گیرِ ارض و سما
میں بھی مگر آدمی
زمانے کی مجھ کو قسم
ہر جا خسارے میں ہوں
میں!!!!“
ایک بلوچ ماں اپنے گم شدہ بیٹے کی گم شدگی کا حساب لیے شہراؤں،گلیوں،روڈوں،پر نوحہ کناں ہے کہ
”جو دیکھو تو بس آبِ گم میں بدلتا ہوا
ہم اپنی نیندوں میں نیندوں کے خوابوں میں چلتے ہوئے آدمی
بس اک رات کا ہے سفر
آسمانی صحیفوں میں جس رات کی قسم کھائی گئی تھی
ہاں اسی رات میں وہ پیغمبر کے ہیں رتجگے
ہاں اسی رات میں وہ چمکتا دمکتا ہنستا اور گاتا ہوا
مِلن اور جدائی کے ایک موڑ پر
وہ کہاں کھو گیا پھر؟
کب سے کھو گیا پھر؟
ستاروں کی چادر
لیے سو گیا
وہ میرے چاند جیسا!“
اس کے ہو تے ماں بے حساب تھی
اس کے نہ ہونے سے ماں حسابوں سے بھر گئی ہے،
ہاتھوں کی لکیروں میں حساب،پیروں میں پھٹی پرانی دردوں سے چور پیروں میں حساب،سفید بالوں سے بھری مانگ میں حساب،منتظر دید میں حساب،جھریوں والے چہرے میں حساب
آنسوؤں میں حساب،دل کی دھڑکن میں حساب،
گھر میں حساب
گھر کے در میں حساب
اداس شاموں میں حساب
بھیگی بھیگی صبحوں میں حساب
طویل راتوں میں حساب
درد کی برستی بارشوں میں حساب
پہاڑوں کی چوٹیوں پر گرتی اوس بے حساب
پر درد کا کیا حساب ہے؟جو ایک ماں کو دامن گیر ہوا ہے
اور وہ درد ماں دوپٹے کے میلے پلوں سے صاف کرتی ہے
تم کچھ بھی کرو پر گم شدہ لوگ ٹوئیٹر کی چلائی ہوئی کیمپین سے نہیں لوٹتے
وہ ماں دنوں کا حساب تو رکھ سکتی ہے
ماں ٹوئیٹر کیمپین کا حساب کیسے رکھے؟
وہ ماں جس کی دید اب مزید انتظار کی کیفیت نہیں جھیل سکتی
وہ ماں جس کا دل فقیر کے کشکول کی طرح ٹوٹ چکا ہے
جس کشکول سے
آنسو
اور دلاسہ بہہ جاتے ہیں
وہ ماں ماتم نہ کرے تو پھر کیا کرے؟
”سڑک پر مارے مسافروں کی طرح
جھڑتے
پتوں کی طرح
ڈار سے بچھڑے
کُر لاتے پرندوں کی طرح
شامِ شہرِ غریباں میں کسی ماتم کی طرح!
سفرِ صحرا میں سرابوں کی طرح
ماں ماتم نہ کرے تو پھر کیا کرے؟“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں