بلوچ ثقافتی دن اور ارتقائی سفر ۔ نعیم بلوچ

737

بلوچ ثقافتی دن اور ارتقائی سفر

تحریر: نعیم بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ نوجوان و خصوصاً بلوچ طلبہ موجودہ وقت میں بلوچ کلچر ڈے (بلوچ ثقافتی دن) کے حوالے سے شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ بلوچ قوم کے موجودہ حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ثقافتی دن منایا جائے یا نہیں.

ثقافتی دن منانے یا ثقافت کو اپنانے سے پہلے یہاں کئی سوالات جنم لیتے ہیں کہ آیا ہم (بلوچ) حقیقی معنوں میں اپنی ثقافت سے واقفیت رکھتے ہیں؟ ہم میں سے کتنے لوگ یہ جانتے ہیں کہ دو مارچ کو بلوچ ثقافتی دن کیوں منایا جاتا ہے؟ آخر دو مارچ ہی کیوں؟ اس دن کیا ہوا تھا؟ آج سے ایک دہائی سے زیادہ عرصہ پہلے خضدار میں ثقافتی پروگرام میں بلوچ طلبہ کو کس نے شہید اور زخمی کیا؟ کیوں کیا گیا یہ سب؟ وہ طلبہ کیا چاہتے تھے؟ آخر کسی کو ثقافت سے کیا خوف تھا جو معصوم طلبہ کی انہوں نے جان لے لی؟

کیا دو مارچ کو دستار سدری پہن کر اور چھڑی اٹھا کر ڈھول پہ چاپ (رقص) کرنے سے بلوچ ثقافت علاقائی و بین الاقامی سطح پہ اجاگر کی جاسکے گی؟

آئیے ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں، آخر وہ کیا وجوہات ہیں کہ بلوچ ثقافت پہ ابھی تک کوئی جامع لٹریچر ترتیب نہیں پایا ہے؟ کیا ثقافتی ورثے کو کتابی شکل نہ دینا ثقافت سے زیادتی کے مترادف نہیں؟ ناسا جیسے ادارے میں خلائی سائنسدان بننے کے باوجود آخر بلوچ کیوں اپنی ثقافت کی سائنسی پہلو سے واقف نہیں ہے؟

بلوچ کلچر ڈے ضرور منانا چاہیے، ثقافت ہماری قومی پہچان ہے اس کو ضرور اجاگر کرنا چاہیے اپنانا چاہیے لیکن کیا ہم حقیقی معنوں میں ثقافت کو اجاگر کر رہے ہیں؟ کیا بلوچ نوجوان حقیقی معنوں میں بلوچ ثقافت میں ڈھل چکا ہے؟ یا محض ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دستار اور سدری پہنا کے محض چاپ تک محدود رکھا جارہا ہے.

سر پہ بیس میٹر لمبی دستار پہنے بلوچ نوجوان کیا اس دستار کی ثقافتی اہمیت اور دستار کے بلوچ ثقافت کا حصہ بننے کے پیچھے وجوہات سے واقف ہے؟ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ دستار بلوچ ثقافت کا حصہ کب کیوں اور کیسے بنا؟ جی ہاں یہ محض دستار نہیں بلکہ آج سے ہزاروں سال پہلے ہمارے آباو اجداد کی یہ وہ سائنسی ایجاد ہے جو اس قدیم دور میں ہیلمٹ کی جگہ پہاڑوں سے پھسلنے و گرنے کی صورت میں سر کی حفاظت، ہیٹ اسٹروک( Heat stroke) یعنی شدید گرمی کی شدت اور ڈی ہائیڈریشن سے حفاظت کرتی تھی اور آج بھی اس کی اہمیت وہی ہے.

بغیر کسی ڈگری، وسائل اور سائنسی اداروں کے باوجود بلوچ ہزاروں سال پہلے یہ جانتے تھے کہ جانوروں کی کھال میں قدرتی طور پہ وہ بیکٹیریا موجود ہیں جو خمیر( Fermentation) کے عمل میں استعمال ہوتے ہیں، مشکیزہ محض ایک حادثاتی ایجاد نہیں تھی بلکہ بلوچوں کی قدیم طرز پہ بائیو ری ایکٹرز اور فرمنٹرز(Bioreactors and fermenters) ہیں، بلوچ ہزاروں سال پہلے ان سائنسی طریقوں سے واقف رہے ہیں کہ کس طرح گوشت کو پریزرو(Preserve) کرنا ہے، کس طرح جانوروں کی کھال کو محفوظ رکھنا ہے، کس طرح نمک ڈالنے سے ہائپر ٹونک کنڈیشن پیدا کرکے بیکٹیریا اور دوسرے جراثیموں کو ختم کرنا ہے، کس طرح ڈَڈُوکی ( بلوچوں کی تقافتی روٹی) میں چینی اور دیگر اجزاء شامل کر کے اسکو مہینوں تک قابل استعمال بنانا ہے.

کیا یہ سب محض اتفاقات تھے؟ حادثاتی ایجادات تھے؟ یقیناً اتنے سارے اتفاقات کا ایک ساتھ واقع ہونا سائنسی لحاظ سے بھی ممکن نہیں، اگر کلچر ڈے منانا ہی ہے تو دستار، سدری، چھڑی اور ڈھول پہ چاپ کے ساتھ بلوچ نوجوانوں کو ثقافتی دن کی نسبت سے منعقدہ پروگروں میں ثقافتی ورثہ، اسکے ارتقائی عوامل اور اس سلسلے میں لٹریچر کی ترتیب جیسے موضوعات پہ بحث کرنی چاہیے، ثقافت کے پیچھے موجود سائنسی طریقہ کار پہ رسالے اور مقالے لکھ کر دنیا پہ آشکار کرنا چاہیے کہ قدیم دور میں بھی بلوچ کتنا ترقی پسند تھے اور جدید دور کی تمام تر سائنسی ایجادات پہ ان کو ہزاروں سال پہلے عبور حاصل تھا، محدود وسائل و بغیر تعلیمی اداروں کے باوجود بلوچوں نے آج کے جدید طرز پہ سائنسی اصولوں پہ پورا اترتی ایجادات علاقائی سطح پہ کرکے دنیا کو حیرت میں ڈال دیا تھا، اگر کمی تھی تو یہ کہ ان سب کارناموں کو تحریری شکل اُس دور کی مناسبت سے نہیں مل سکی.

آج اس جدید دور میں بھی بلوچی ثقافتی لباس، بلوچی ثقافتی خوراک، بلوچی حال حوال و دیگر عوامل کے ان سائنسی پہلووں پہ آخر کیوں روشنی نہیں ڈالی جاسکی ہے؟ ہم کیوں کر اس اہم موضوع پہ ابھی تک قلم کشائی تو دور کی بات ہے لب کشائی تک نہیں کرتے، ہم کیوں سمجھنے، سوچنے تحقیق کرنے اور جستجو کرنے کی کوشش نہیں کرتے کہ قدیم دور میں بھی جدید ٹاک شوز و جرنلزم کے طرز پہ بلوچی حال حوال کا آغاز کیسے ہوا؟ کیوں ہوا؟ اسکی سیاسی و اقتصادی اہمیت کیا ہیں؟

ہم کیوں ان باتوں پہ تحقیق نہیں کرتے کہ بلوچوں نے جدید پریزروڈ خوراک( Modern preserved Food) کے طرز پہ ہزاروں سال پہلے کُرنوں ( کاک) پریزرو کھجوریں، دودھ، مچھلی کو خشک کرنے کے سائنسی طریقے، مشکیزہ، گھیردار شلوار جو کہ ٹائٹ جینز کی نسبت خون کی روانی اور ہوا کے گزر میں رکاوٹ نہ بن کر لمبے سفر میں آ سانی کا سبب بنتی ہے جو کہ آج ہماری ثقافت کا حصہ ہیں آخر یہ کیسے حصہ بنے؟ کیا ہمارے آباو اجداد پیدائشی سائنسدان تھے؟ اگر نہیں تو مقامی سطح پہ انہوں نے اتنی ساری حیرت انگیز ایجادات کیسے کی؟ کیسے انکو پتہ چلا کہ فلاں فلاں جڑی بوٹی میں فلاں کیمیکل اجزاء موجود ہیں اور یہ کس بیماری کے لئے مفید ہیں؟ آج بھی بلوچستان کے دیہی اور پہاڑوں علاقوں میں لوگ دیسی جڑی بوٹیوں سے انسانوں اور مال مویشیوں کا علاج معالجہ کرتے ہیں اور ہزاروں نہیں تو سینکڑوں جڑی بوٹیوں سے واقفیت رکھتے ہیں کہ یہ کب کہاں کس جگہ اور کونسے موسم میں پیدا ہوتی ہیں اور کس بیماری کے لئے مفید ہیں. یہ معلومات اپنے آپ الہامی طور پہ نہیں اتری بلکہ یہ قدیم بلوچ ثقافت کی داستان ہے کہ کسطرح ہمارے اجداد نے ایسی انمول سائنسی معلومات حاصل کرکے نسل در نسل ہم تک منتقل کی ہیں.

وہ یہ کیسے جان پائے کہ مونملائی (سلاجیت) ہڈیوں کی مضبوطی اور دیگر بہت ساری بیماریوں کا علاج ہے؟ وہ کیسے یہ معلوم کرپائے کہ ہوا کا رخ ایسا ہے تو اسکا کیا مطلب ہے، وہ جدید محکمہ موسمیات کے طرز پہ ہر موسم کی بالکل صحیح پیشگوئی کرنا کیسے سیکھ گئے؟

بقول ایک دوست کے کہ اگر آج کے اس دور میں پوری دنیا میں ٹیکنالوجی کرائسس ( Technology Chrisis) پیدا ہوجائے، انٹرنیٹ، بجلی، گاڑیاں، سیل فونز، کمپیوٹر غرض جتنی بھی ٹیکنالوجی ہے وہ یکسر کسی قدرتی حادثے (Natural Disaster) کا شکار ہو کر ختم ہوجائے تو اس وقت اگر دنیا میں کوئی انسان سروائیو کرپائے گا تو وہ یقیناً بلوچ ہی ہونگے اور یقیناً یہ بلوچوں کی ہزاروں سالہ قدیم ثقافت کی وجہ سے ہی ممکن ہوپائے گا.

اگر واقعی ہمیں اپنی ثقافت سے محبت ہے، ہمیں ثقافتی دن ہر حال میں منانا ہی ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہم ثقافت کو سائنسی سطح پہ سمجھیں، تحقیق کریں، ثقافت کو اپنائیں اور ثقافتی دن کے موقع پہ منعقدہ پروگراموں میں دستار، سدری، چھڑی اور چاپ کے ساتھ ساتھ ان کی ابتداء، سائنسی اہمیت، اور ثقافتی ارتقاء کے اتار چڑھاو اور اسکی وجوہات وغیرہ جیسے موضوعات کو زیر بحث لائیں.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں