غلامانہ سوچ سے آزادی ۔ نورا گل

854

غلامانہ سوچ سے آزادی

تحریر: نورا گل

دی بلوچستان پوسٹ

وطن غلامی کی تپش میں جل رہا ہو اور وطن زادے مزاحمت کا عَلَم لیے اپنے جانوں کی پرواہ کیے بغیر وطن کے کوہ دامن پر پہرہ دار ہوکر زندہ ہونے کی دلیل اور بہادر ہونے کی تاریخ کو قائم رکھے ہوۓ ہوں وہاں پر قبضہ گیر راحت سے بیٹھ کر مظلوموں کیلۓ احساس بھرے نغمے نہیں گائیگا بلکہ وہ زندانوں کو رونق بخشنے کیلۓ مزید قوم پرستوں کو غیر انسانی جبر کا نشانہ بناتا رہے گا اور اپنے ظلم و جبر کو مزید وسعت دیکر غلامی کو برقرار رکھنے کی کوشش کریگا ۔

غلام کیلۓ آزادی کا سب سے بڑا دن وہ ہوتا ہے جب وہ غلامانہ سوچ سے آزادی حاصل کرتا ہے۔ تاریخ، قومی ریاست ،قومی رہنماٶں اور ثقافت سے واقفیت غلام کو اسکے غلامی کا احساس دیتا ہے۔ اور قبصہ گیر کو ہمیشہ چیلینج کا سامنا رہتا ہیکہ وہ غلام کو غلام رہنے پر آمادہ کرے اور اس وجہ سے ہر وہ عمل مزاحمت ہے جو غلاموں کی تاریخ، ثقافت و قومی تشخص کی ترجمانی کررہا ہو۔

دنیا میں قبصہ گیروں نے کالوناٸیزڈ ریاستوں کے تاریخ کو مسخ کرنے ثقافت کو متنازعہ کرنے اور جغرافيائی حدود کو تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ غلام اپنے تاریخ سے لاعلم ہو اپنے ثقافت کو ترک کرےاور جغرافيہ حدود سے محروم رہے ۔ پاکستان بطور قبضہ گیر اور برطانوی غلام ہر ممکن کوشش اور قبضہ گیری ہتھکنڈے استعمال کرکے بلوچ قوم کی تاریخ ،ثقافت اور بلوچ قومی ریاست کی جغرافیاٸی حدود کو مسخ کرنے کی کوشش کر رہی ہے ۔

مذہب ،قباٸل، زبان ، اور دیگر جواز کے تحت قومی تاریخ، ثقافت اور روایات کو ختم کرکے بلوچ قوم کو اندھیروں میں رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جب بلوچ آزادی پسند تحاریک اور طلبا ٕ تنظیموں نے بلوچ قوم کو حقیقی تاریخ کا علم دیا اور تشدد کے فلسفے کا درس دیا تو زور و شور سے مختلف مذہبی اجتماعات منعقد ہوۓ اور غلام قوم کو غلام ہونے پر شکر ادا کرنے کی ترغیب دی گٸی ۔ پھر مذہبی فرقہ واریت کے ذریعے وہ بلوچ قوم پرست عالم دین شہید ہوۓ جو بلوچ قومی تاریخ کا درس دیتے تھے اور بلوچ قومی آزادی کی جنگ کو جہاد قرار دیتے۔

جب اس دلدل سے بلوچ نکلا ہی نہ تھا کہ قباٸل جنگوں کا آغاز ہوا اور قباٸل جنگ میں وہ لوگ زیادہ متاثر ہوۓ جو بلوچ قومی آزادی کے جنگ سے وابسطہ تھے یا بلوچ سرمچاروں کو مدد کررہے تھے ۔
بلوچ کو زبان کے بنیاد پر تقسیم رکھنے کے عمل میں ذر خوروں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور یہاں تک کہ نۓ صوبے کیلۓ سفارشات بھی ہوۓ ۔

ایسی ریاستی سازشیں اب بھی تواتر سے جاری ہیں کہ سکول کالج اور مذہبی درسگاٶں میں سیکولرازم کے نظریے کے بارے میں مغالطے بیان کیۓ جارہے ہیں تا کہ طلبا ٕ کو بلوچ مزاحمتی تحریک کے متعلق گمراہ کیا جاۓ ، بلوچ کے ثقافت کو رجعت پسندانہ سوچ کے تحت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ وہ لوگ آج خود کو غیرت مند ثابت کرنے کی کوشش کرکے بلوچ عورتوں کو ثقافت اپنانے پر تنقید کا نشان بنا رہے ہیں۔ جب بانک زرینہ مری کو ناپاک آرمی نے اغواہ کیا اور اس بلوچ عورت کو جبر کا نشانہ بنایا تب بلوچی غیرت ،مذہبی جذبات ،مذہبی تعلیمات نظر نہیں آرہے تھے ۔ ان حالات میں جب بلوچ قومی ثقافت ریاستی کیلۓ ناگزیر گزرتی ہو ان حالت میں ثقافت کو اپنانا بھی مزاحمت ہے۔ بلوچ عورت اپنے بھاٸیوں کے ساتھ بلوچی چاپ پیش کرکے اپنے ثقافت کی ترجمانی کرتی ہے تو اس میں حرج کیا ، کاش ایسی تنقید تب ہوتی جب بلوچ عورتیں فوجی چھاونیوں میں 14اگست یوم سیاہ پر ناپاک آرمی کی منعقد کردہ تقاریب میں پنجابی جرنیلوں کے سامنے رقص کرتی ہیں ۔

بلوچ قوم کو ان سارے فریب سے آگاہ کرنا وقت کا تقاضا ہے اور سب سے ضروری امر ان سازشوں کے خلاف اپنا عمل جاری رکھنا ہے ۔ ہر بلوچ پر یہ فرض عائد ہیکہ وہ اپنے قوم کو قومی تاریخ و ثقافت سے آگاہ کرے اور مزاحمت کے شمع کو جلاۓ رکھیں ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں