کون سسئی؟ ۔ محمد خان داؤد

221

کون سسئی؟

محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

ہم نے سسئی کو نہیں دیکھا
”سر جیس تاں سور“ والی سسئی
”سامائی تہ سُکھ ویا“ ولی سسئی
اپنے حقوق سے محروم کی گئی سسئی
اپنی طرف سے اپنے آپ منتخب کیے محبوب سے دور کی گئی سسئی!
اپنے دولھا، قانونی رشتے والے انسان سماج کا ٹھپہ لگی محبت،اور مظلوم بنائی گئی سسئی
مسافر سسئی،پہاڑوں اور پتھروں کے بیچ رُلتی سسئی، پہاڑوں پتھروں سے زخمی پیر کیے سسئی، اکیلی سسئی،تنہا سسئی،سفر سسئی، مسافر سسئی،وہ سسئی جو جب پہاڑوں اور پتھروں سے گزری تو پتھروں نے سسئی کو روک کر پوچھا تھا کہ”بی بی ہم تمہا رے لیے کیے کیا؟“
تو ”ڈونگر مون سین روئے کڈھی پار پنہوں جا!“
(محبوب کو یاد کر کے اے پتھرو میرے ساتھ روؤ)کا جواب دینے والی سسئی!
معصوم سسئی،خوبصورت سسئی وجہی سسئی،!
چاند سے چہرے، رات سی زلفوں،رات سی زلفوں چاند سے چہرے والی سسئی!
بارشوں کے قطروں جیسی سسئی، گلاب کی رنگت والی سسئی،انگور کی آنکھوں والی سسئی
یہ سسئی تو کنواری تھی
اس بیچاری نے تو عشق کو شادی کے نام میں تبدیل کیا
اس کے عشق پر اس فرسودہ سماجی نظام (شادی ہونا) کا ٹھپہ لگا ہوا تھا
پر سسئی کی اپنی پسند
”نہ کا جھل نہ پل سبھ کو پسے پرین ء کھے!“
لطیف نے تو یہ اس لیے کہا تھا کہ آزادی،انسان، انسان کے وجود اور روح کو آزادی میسر ہو
اول آزادی
آخرآزادی
آزادی زندہ باد
پر یہاں تو آزادی میسر نہیں یہاں پر کون آزاد ہے؟
پر یہاں توہر قسم کی آزادی کوئے کی آنکھ کی طرح چھبتی رہی ہے
مظلوم بن کرہر کسی کو اپنے آپ رحم کھاتی نظریں پڑنے والی سسئی
پر مظلوم بن کر،محرومیت پر رونے والی اور ماتم کرنے والی سسئی نہ تھی
وہ اُٹھ کھڑی ہوئی
کسی کی مدد مانگنے سے انکاری سسئی
نکل پڑتی ہے اپنے حق کے حاصلات کے لیے
اس لیے دریا میں لکڑی کے تختے پر تیری سسئی
محمد کھٹی کو پانی میں کپڑے دھوتے چاند سے چہرے والی ہاتھ آنے والی سسئی
اپنی اصل ماں،بابا کا کبھی چہرہ نہ دیکھنے والی سسئی
قسمت کے ہاتھوں زبرستی متھے لگنے والے بابا،ماں کے معصوم ہاتھوں سے کپڑے دھونے والی سسئی
پنہوں کو ایک جلوہ دکھا کر اپنا عاشق بنانے والی سسئی
کو ہم نہیں جانتے،ہم اس سے واقف نہیں وہ ہمارے دور کی ہیں وہ اس زمانے کی نہیں
پر ہم تو اس سسئی کوجانتے ہیں
جولطیف کی سسئی ہے
جو لطیف کے سروں کی سسئی ہے
جو لطیف کے دکھو،دردوں کی سسئی ہے
جو شاہ کے سازوں کی سسئی ہے
جو نہیں مانتی کہ اس سے اس کا حق چھینا جائے
جو اپنے محبوب کے پیر تلاش رہی ہے جو اپنے محبوب کو دیکھنا چاہتی ہے،جو اپنے محبوب کو کال کوٹھڑی سے آزادی دلانا چاہتی ہے،
جو ننگے پیر نکل پڑتی ہے
جو سفر میں ہیں
جو مسافر ہے
جو ہجر میں ہے
جو درد میں ہے
جس کے پیر دھول آلود ہیں
جس کے پیر تھک ہوئے ہیں
شِل ہیں
اور جس کی جوتیاں سفر سے ٹوٹ چکی ہیں
اپنے پنہوں سے دور اور اپنے پنہوں کے دردوں سے بے خبری سسئی
پیروں کے نشان تلاش کر کے پنہوں کے پیر تلاشتی کرتی سسئی!
”ھاڑھی“پہاڑ کو شکست دیتی سسئی
”پبھ“پہاڑ کو شکست دیتی سسئی
لُک(لوُ)دیکھ کر پسپا نہ ہو تی سسئی
وہ سسئی جس کے
اونٹ دشمن
اوٹھار دشمن
دیوار دشمن
ہوا(جس نے پنہوں کے پیروں کے نشان مٹائے) دشمن
سورج دشمن(جو جلدی غروب ہوگیا)
چاند دشمن(جو جلدی طلوع نہ ہوا)
پہاڑ دشمن(جس کی راہیں سیدھی نہ تھیں)
بلکل سمی بھی سسی ہے ہو بہ ہو سسئی آج کی سسئی بہادر سسئی
جس کے ادارے دشمن،سیا سی اکابردشمن،گوادر کو حق دو نام نہاد تحریک دشمن مُلا دشمن،ملٹری دشمن یہ دشمن وہ دشمن نام نہاد میڈیا دشمن،سردار دشمن،پھر بھی سمی سسئی کی ماند پہاڑوں اور پتھروں پر سفر کر رہی ہے اور اپنے پنہوں کو تلاش رہی ہے آئیں ہم ایسی سسئی کو سلام کریں
ہم سلام سے بھی رہے
پر شاہ کی سسئی کے درد میں تو پتھر بھی روئے تھے
”ڈونگر مون سین روئے کڈھی پار پنہوں جا!“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں