دس مہینے بعد بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین ایک دفعہ پھر اسلام آباد میں سراپا احتجاج

248

اسلام آباد میں وائس فار بلوچ مسنگ کی جانب سے بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ ریلی کے شرکاء نے اسلام آباد پریس کلب سے ڈی چوک تک پیدل مارچ کی جس میں بلوچستان سے لاپتہ افراد کے لواحقین، طلباء، سول سوسائٹی سمیت سیاسی تنظیموں کے ارکان نے بڑی تعداد میں شرکت کی –

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء سمی دین بلوچ کی قیادت میں ریلی عالمی یوم انسانی حقوق کی مناسبت سے نکالی گئی۔

ریلی میں بلوچ یکجہتی کمیٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی، سول سوسائٹی، وکلاء، بلوچ کونسل اور بی ایس او کے رہنماؤں و کارکنان نے شرکت کی۔ جبکہ بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین کل منعقد ہونے والے انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر کانفرنس میں شرکت کرنے کے لئے اسلام آباد میں موجود ہیں –

احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے شرکاء کا کہنا تھا کہ آج سے دس ماہ قبل ہم اسی ڈی چوک پر لاپتہ افراد کی فریاد لیکر احتجاجی دھرنے پر موجود تھے حکومتی ارکان نے ہمیں جھوٹی تسلی دیکر واپس بلوچستان بھیج دیا تھا –

شرکاء کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کا سلسلہ برقرار ہے، آئے روز لوگوں کو ماورائے عدالت و قانون سیکورٹی فورسز حراست میں لیکر لاپتہ کررہے ہیں حکومتی دعوے فقط لواحقین کی احتجاج کو ختم کرنا تھا اس کے بعد لاپتہ افراد کے بارے کسی بھی طرح کا کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے –

مظاہرین میں لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی بلوچ، لاپتہ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین کی بھتیجی، خضدار کے رہائشی آصف و رشید کے لواحقین سمیت درجنوں لاپتہ افراد کے لواحقین موجود تھے اور اپنے لاپتہ پیاروں کے تصاویر اٹھائے ہوئے تھے –

مظاہرین سے گفگتو کرتے ہوئے لاپتہ افراد کے لواحقین کا کہنا تھا کہ جب ہمارے پیارے جبری طور لاپتہ کردئے جاتے ہیں تو ہم ہر ممکن قانونی راستہ اپنا کر لاپتہ پیاروں کی بازیابی کی کوشش کرتے ہیں آج ہمارا یہاں موجود ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ایوانوں میں بیٹھے عوامی لیڈر و عدالتیں ہمیں انصاف دینے سے بلکل انکاری ہیں جس کے باعث ہم لواحقین احتجاج پر مجبور ہیں –

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء سمی بلوچ جو اس احتجاجی ریلی کی قیادت کررہی تھی۔ ان کے والد ڈاکٹر دین محمد ایک دہائی کے زائد عرصے سے جبری طور پر لاپتہ ہے۔ سمی بلوچ کا کہنا تھا کہ ایوانوں میں بیٹھے اس ملک کے ذمہ دار و انسانی حقوق کے وزیر نے آج سے دس ماہ قبل ہمیں یقین دہانی کرکے واپس بھیج دیا تھا تاہم اسکے بعد لاپتہ افراد کے بارے کسی قسم کی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی –

لاپتہ انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین کے بھتیجی ماہ زیب بلوچ کا کہنا تھا کہ پچھلی بار شیرین مزاری نے مجھے اور دیگر لاپتہ افراد کے لواحقین کے سر پر ہاتھ رکھ کر ہم سے وعدہ کیا تھا کہ وہ ہمارے لاپتہ پیاروں کے بارے بڑی سطح پر کاروائی کرینگے تاہم وزیر صاحبہ اسکے بعد اس معاملے پر بلکل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے –

دریں اثناء اسلام آباد میں موجود لاپتہ افراد کے لواحقین کل انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر لاپتہ افراد کے لئے منعقد ایک کانفرنس میں شرکت کررہے ہیں۔