ڈاکٹر صبیحہ کے بھائی و کزن کی جبری گمشدگی ایکٹوسٹس کو خاموش کرنے کی پالیسی ہے – ماما قدیر

450

بلوچ طلباء رہنماء ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے بھائی اور کزن کی جبری گمشدگی بلوچستان میں ایکٹوسٹس کو خاموش کرنے کی ریاستی پالیسی کا تسلسل ہے۔ ان خیالات کا اظہار وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے اپنے بیان میں کیا ہے۔

ماما قدیر بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے چیئرپرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے بھائی شاہ میر بلوچ کو 19 جون 2021 اور کزن مرتضیٰ بلوچ کو 22 ستمبر 2021 کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور بعدازاں لواحقین کو آواز اٹھانے پر مذکورہ نوجوانوں کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دی گئی۔ مرتضیٰ زہری کو اس سے قبل 2009 میں جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور دو مہینے بعد رہا کیا گیا جبکہ رواں سال 9 ستمبر کو لاپتہ کرنے کے بعد سترہ ستمبر کو رہا کیا گیا اور چار دن بعد 22 ستمبر کو تیسری بار جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔

ماما قدیر بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ ان واقعات سے واضح ہوتی ہے کہ بلوچستان میں پاکستانی فورسز اور خفیہ ادارے بے لغام ہوچکے ہیں، وہ جب چاہے جہاں سے چاہے کسی کو اٹھاکر گاڑی میں پھینک دیتے ہیں اور پھر مذکورہ شخص کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں ملتی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں اجتماعی سزا تسلسل کئی سالوں سے جاری ہے۔ اسی پالیسی کے تحت بلوچستان میں سرگرم طلباء، سماجی کارکنان، سیاسی کارکنان کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کو بھی اسی پالیسی کے تحت ریاست کی جانب سے سزا دی جارہی ہے جس کی میں مذمت کرتا ہوں۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ میں بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین، سیاسی و سماجی کارکان اور دیگر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سے اپیل کرتا ہوں کہ مذکورہ نوجوانوں کے حوالے سے کوئٹہ میں ہونے احتجاجی مظاہرے میں بھرپور شرکت کرکے ان سمیت دیگر لاپتہ افراد کی بحفاظت بازیابی کیلئے آواز اٹھائیں۔