مزاحمت یا جدوجہد ۔ حمل بلوچ

384

مزاحمت یا جدوجہد

تحریر:حمل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

“مزاحمت” اور “جدوجہد” دونوں اپنی فطرت میں متضاد معنی رکھتے ہیں۔ مزاحمت لفظ کا ماخذ وقتی ردعمل جبکہ جدوجہد کا ماخذ کُل وقتی عمل کے ہیں۔ مزاحمت غیر منظم جبکہ “جدوجہد” منظم، جزُ کی شکل میں مزاحمت جبکہ کُل(بحثیت قوم) “جدوجہد”۔عظیم مقاصد/ قومی ریاست/آزادی کے لئے “جدوجہد” کی جاتی ہے۔

تاریخی حقائق سے ثابت شدہ ہے کہ بلوچ قومی مزاج جارحانہ/ Offensive نہیں بلکہ Defensive ہے۔ لیکن جب کبھی کسی بھی قوت کی طرف سے پہلے حملہ ہوا ہے تو بلوچ نے مزاحمت/وقتی ردعمل کے بعد مجموعی طور پر جدوجہد کا راستہ اختیار کیا ہے۔ جس کا اندازہ ہمیں بالاچ گورگیج اور اس بتل (سو سال تک بلوچ اپنا بیر/بدلہ نہیں بھولتا) یعنی جدوجہد جاری رکھتا ہے۔

برطانیہ کی نوآبادکاری سے شروع بلوچ قومی جنگ جدوجہد کی صورت میں قومی ریاست/آزادی کے لئے ہنوز جاری ہے۔اسے “مزاحمت” جیسے الفاظ کے معنی پہنانا غلط ہے۔

استعماری قوتیں اپنے استعماری عزائم کو دوام بخشنے کے لئے الفاظ کو اُن کے اصل معنوں (تاریخی سچائی) سے کاٹ کر مصنوعی معنی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

بلوچ قومی جدوجہد کے حوالے سے الفاظ کی ہیر پھیر سے ابہام پیدا کرنا استعماری قوتوں کا خاص ہتھکنڈا رہا ہے۔انگریز سے شروع اس سلسلہ کا نسب پنجابی سے ملتی ہے تو وہی قوم پرستی (پارلیمانی) کے کچھ بلوچ دعویدار بھی اس سلسلے میں استعمار کے معاون رہے ہیں۔

جہاں لفظوں کے اس ہیر پھیر کا بنیادی مقصد قوم میں جدوجہد کے حوالے سے ابہام پیدا کرنے کی کوشش رہی ہے تو وہیں بلوچ قوم پرستی کے دعویدار بھی خوب اسی ابہام کے شکار رہے ہیں۔لفظ “سردار” و “قبائلی” پنجابی استعمار کے پسندیدہ الفاظ رہے ہیں۔ پنجابی کی جانب سے “سردار” لفظ کو جاگیردار کے معنیٰ دینے کی کوشش تھی جبکہ لفظ “قبائلی” کو نسلی گروہ کے۔ حالانکہ بلوچ سماج میں تاریخی حوالے سے ان دونوں الفاظ کے معنی پنجابی کے بیان کردہ معنی کے بلکل متضاد ہیں۔ لفظ “قبیلہ” کے معنی نسلی بنیادوں پر نہیں بلکہ ایک متحدہ شکل میں رہنے والے مختلف النسل افراد کے ہیں۔ جبکہ لفظ “سردار” کے معنی اسی گروہ کی باہمی رضامندی سے چنیدہ رہنما کے ہیں۔اسی طرح بلوچ قومی جدوجہد کے حوالے سے ابہام پیدا کرنے کے لئے پنجابی کی جانب سے ایجاد کردہ الفاظ “قومی حقوق کی تحریک/صوبائی خودمختاری کی تحریک” بھی کچھ ایسے ہی الفاظ ہیں۔

الفاظ کے اس مکروہ دھندے کے خلاف کچھ بلوچ قوم پرست رہنما “سردار خیر بخش مری” کی شکل میں برسرپیکار دکھائی دیتے ہیں۔ تو وہی قوم پرستوں کی ایک بڑی تعداد اس ابہام کا شکار رہا ہے ۔ حال ہی میں تقسیم کا شکار ایک مسلح تنظیم (ایک گروپ) اور اس کے علاؤہ سرفیس سیاست کے حامی ایک تنظیم (اپنے اسٹرکچر اور موقف/مقاصد میں غیر واضح) کی طرف سے جاری کردہ بیانات میں اس ابہام زدگی کا کھلا اظہار نظر آتا ہے۔

“حال ہی میں تقسیم کا شکار مسلح تنظیم (ایک گروپ)” اپنے بیان میں لفظ “سردار” کو ہو بہو پنجابی کی عطا کردہ معنی(جاگیردار) میں استعمال کرتا ہے جبکہ “سرفیس سیاست کے علمبردار ایک تنظیم (اب تک اپنے اسٹرکچر اور موقف/مقاصد کے حوالے سے واضح نہیں)” کی جانب سے جاری کردہ بیانات کی ایک کثیر تعداد میں لفظ جدوجہد کی جگہ مزاحمت پر قناعت کرتی ہوئی اور مزاحمت کو جہدوجہد پر فوقیت کے انداز میں پیش کرنے میں جُھتی ہوئی نظر آتاہے۔ جبکہ اپنے موقف و مقاصد میں غیر واضح پن کا شکار ہونے کی وجہ سے پنجابی کی جانب سے عطا کردہ “حق حقوق”، آزادی کے بجائے قومی مسئلہ پنجابی کی طرف سے “انصاف” نہ ملنا ہے۔ جیسے الفاظ کا ورد کرتے ہوئے نظر آتی ہے۔

بلوچ قومی رہنما شہید بالاچ مری اس ذہنیت کے حوالے سے کچھ یوں فرماتے ہیں”غلام قوم اور ” غلامانہ ذہنیت” یعنی شکست خوردہ ذہنیت سے ہمیں بالاتر ہوکر ایک آزاد ذہنیت کے تحت اپنے سیاسی اور دانشورانہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔

اگر ہم اس “شکست خوردہ” اور “اثر زدہ” ذہنیت کے حوالے سے جانچ پڑتال کریں تو یہ ذہنیت “اوپر” سے لیکر “نیچے” تک نظر آتا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں