ایک نظر تربت یونیورسٹی ۔ گمنام بلوچ

279

ایک نظر تربت یونیورسٹی

گمنام بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں تعلیم حاصل کرنا بھی دیگر معاملات کی طرح ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح بلوچستان میں دیگر شعبہ زندگی کے ساتھ ساتھ تعلیم کے لیے بھی بہت ہی کم مواقع موجود ہیں، بلوچستان میں نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد تعلیم سے غربت کی وجہ سے دور ہے مگر جو بہت ہی محنت اور فریاد سے جو ادارے بلوچستان کے لوگوں کو میسر ہیں وہاں بھی تعلیم کی حالت ابتر اور سنگین ہے جس سے بلوچستان کے المیوں کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ بلوچستان میں پاکستان کے دیگر علاقوں کی نسبت یونیورسٹیاں بہت ہی کم ہیں اگر دیکھا جائے تو جتنی یونیورسٹیاں صرف لاہور میں ہیں اتنے یونیورسٹیاں پورے بلوچستان میں نہیں ملتے، جتنے ملتے ہیں وہاں بھی تعلیم اور نظام اتنا کرپٹ بنایا جاتا ہے جس سے تعلیم حاصل کرنا انتہائی مشکل بن جاتا ہے۔

بلوچستان کے بہت ہی کم یونیورسٹیوں میں ایک جامعہ تربت بھی ہے جہاں مسائل کا انبار ہے اور کوئی پوچھنے والا بھی نہیں، تربت یونیورسٹی میں کرپشن اور بدانتظامی اپنی جگہ بہت ہی بڑے پیمانے پر پھیلا ہوا ہے مگر بدقسمتی سے بہت ہی چھوٹے معاملات طلبہ کے بھی حل نہیں ہوتے جس سے وہ ذہنی کوفت میں رہتے ہیں۔ پورے یونیورسٹی کے احاطے میں ایک بھی ایسا دکان نہیں جہاں طلبہ کو ایشاء ضروریات کی سامان میسر ہوں، تربت یونیورسٹی شاید پورے پاکستان میں واحد یونیورسٹی ہے جہاں دھوبی کا بندوبست بھی نہیں ہے جبکہ ایک میس ہے جہاں کھانے کا نظام انتہائی درہم برہم ہے جہاں دس بجے کے بعد کھانا ملتا ہی نہیں جبکہ دن میں صرف ایک ہی سالن بنایا جاتا ہے جبکہ ریٹ بھی دیگر یونیورسٹیوں کے حساب سے زیادہ ہے۔ جبکہ یونیورسٹی کی طرف سے غیر نصابی سرگرمیاں بھی کچھ نہیں ہوتے جہاں طلبہ ذہنی طور پر کچھ سکون حاصل کر سکیں۔ ہاسٹلز کی حالت جب ایسے ہوں تو یہاں طالب علم کیسے رہائش پذیر ہوکر تعلیم حاصل کرینگے۔

یونیورسٹی کو لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں فنڈز ملتے ہیں مگر یہ کہاں جاتے ہیں اس کا حساب کتاب نہیں لیا جاتا، تربت یونیورسٹی میں انتظامیہ کی طرف سے طلباء کو ذہنی سکون فراہم کرنے انہیں تخلیقی سرگرمیوں میں مصروف کرنے کا کوئی نظام نہیں ہے جس کی وجہ سے طالب علم کم ہی یہاں آتے ہیں جبکہ زیادہ تر کوئٹہ اور پاکستان کے دیگر تعلیمی اداروں میں ایڈمیشن لینے کی کوشش کرتے ہیں، تربت یونیورسٹی میں ایک بڑا المیہ طالب علموں کو ڈراپ آؤٹ کرنے کا بھی ہے ، ہر کلاس میں درجنوں طلباء کو پہلے ہی سیمسٹر میں ڈراپ آؤٹ کیا جاتا ہے جس سے ان طلباء کی تعلیمی کیرئر تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔

جب ایسے ماحول میں جہاں تعلیم حاصل کرنا انتہائی دشوار ہو وہاں کوئی طالب علم آکر ایڈمیشن لیتا ہے تو وہ ضرور محنت و لگن سے پڑھتا ہے مگر ڈراپ آؤٹ کلچر کو پروموٹ کرنے ہر سال سینکڑوں طالب علموں کی زندگیوں سے کھیلا جاتا ہے۔ ٹیچرز کی اپنی نااہلی دیکھا نہیں جاتا جو رٹا لگا کر لیکچر تیار کرتے ہیں اور طالب علوں کو کوئی سوال پوچھنے نہیں دیا جاتا مگر یہی ٹیچرز جب طالب علموں کو درجنوں کی تعداد میں فیل اور انہیں ڈراپ آؤٹ کرکے علم و تعلیم کی بات کرتے ہیں اور میرٹ کی پرچار کرتے ہیں ایسے میں تعلیم حاصل کرنا کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ لگانا ممکن نہیں۔

جبکہ دوسری جانب گرلز ہاسٹل کی وارڈن پروین کا رویہ طالبات کے ساتھ انتہائی غیر روایتی اور آمرانہ ہے جو خود اپنی ڈیوٹی سرانجام دینے میں ہمیشہ سست روی اور کوتاہی کا مظاہرہ کرتی ہے جبکہ طالب علموں کے ساتھ انتہائی سخت اور غیر روایتی و غیر اخلاقی انداز میں پیش آتی ہے جس سے طالبات جو بہت دور سے آئے ہوئے ہوتے ہیں انہیں ذہنی کوفت کا شکار ہونا پڑتا ہے، ان تمام معاملات پر ایک نہیں بلکہ سینکڑوں مرتبہ طلبہ نے انتظامیہ سے بات کی ہے مگر بدقسمتی سے ایسا لگتا ہے کہ انتظامیہ خود ان تمام معاملات میں شامل ہے جو کسی بھی ایسے غلط عمل پر ایکشن لینے کو تیار دیکھائی نہیں دیتا بلکہ ایسے کئی واقعات ہمارے پاس ثبوتوں کے ساتھ موجود ہیں جہاں انتظامیہ کی اپنی کرپشن، بدانتظامی اور جھوٹ و فراڈ شامل ہیں وقت آنے پر اگر انتظامیہ نے اپنے رویہ کو ٹھیک نہیں کیا اور طلبہ کو ریلیف نہیں دیا گیا تو آنے والے وقتوں میں ان تمام معاملات کو بھی میڈیا میں لایا جائے گا۔ تربت یونیورسٹی میں اکثر بلوچ ہی ہیں مگر بدقسمتی سے وہ اپنے عمل و کردار سے کسی بھی طرح بلوچ قوم کی نمائندگی کرتے دیکھائی نہیں دیتے ہیں ایسے حالت میں سب کی زمہ داری ہے کہ وہ اپنے ان ہی بچے کچے یونیورسٹیوں کو بہتر بنائیں تاکہ آنے والے دنوں میں بلوچ قوم کا نسل تعلیم حاصل کر سکیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں