تربت : سی ٹی ڈی کا مبینہ خودکش بمبار سمیت تین افراد کے گرفتاری کا دعویٰ

569

 

سی ٹی ڈی کا گوادر میں گذشتہ ماہ چینی انجینئرز پر ہونیوالے خودکش حملے کے تین سہولت کاروں سمیت ایک مبینہ خودکش حملہ آور کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا ہے ۔

سی ٹی ڈی کے ترجمان کے مطابق ملزمان کے قبضے سے اسلحہ وگولہ بارود برآمد کرلیا گیا ہے۔

ترجمان کی جانب سے مزید بتایا گیا کہ ملزمان رواں ماہ گوادر میں چائینز کانوائے پرخودکش حملے کے سہولت کاری میں ملوث تھے جبکہ ابتدائی تفتیش میں انکشاف ہوا کہ ان واقعات کا ماسٹر مائنڈ ہمسایہ ملک میں موجود ہے۔

سی ٹی ڈی کے مطابق حملے کا ماسٹر مائنڈ رسول بخش ایرانی علاقے چاہ بہار کا رہائشی ہے، خودکش حملہ آور کو بھی ایران سے لایا گیا۔

سی ٹی ڈی کے مطابق گرفتار ملزم عارف ولد در محمد عرف درا نے ان چیزوں کا انکشاف کیا ہے۔

سی ٹی ڈی کے مطابق 21 ستمبر کو سی ٹی ڈی کو باوثوق ذرائع سے اطلاع ملی تھی کہ بلوچ لبریشن آرمی سے تعلق رکھنے والے افراد تربت بازار کے علاقے میں موجود ہے۔

سی ٹی ڈی پریس ریلیز کے مطابق مذکورہ شخص عوام الناس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سمیت سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنانا چاہتا تھا جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ریڈ کرتے ہوئے شعیب نامی مبینہ دہشت گرد کو گرفتار کر لیا۔

دی بلوچستان پوسٹ کے تحقیق سے پتہ چلا کہ شعیب کو پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے 26 اگست کو گوادر سے گھر پر چھاپہ مارکر حراست میں لے کر لاپتہ کردیا تھا۔

شعیب بلوچ بی ایس او آزاد کے سابقہ مرکزی کمیٹی کے ممبر کامریڈ قیوم بلوچ کے بھانجے ہیں ۔

کامریڈ قیوم کو 11 دسمبر 2010 کو گوادر میں اپنے چچا کے گھر سے لاپتہ کیا گیا تھا اور بعد ازاں 10 فروری 2011 کو ان کی مسخ شدہ لاش ہیرونک ضلع تربت سے ایک اور بلوچ سرگرم کارکن جمیل یعقوب بلوچ کے ساتھ برآمد ہوا تھا۔

سی ٹی ڈی کے مطابق عارف نامی ملزم کا کہنا ہے کہ اس کے بھائی احمد نے خود کش حملہ آور کو ایران کے علاقے رامن سے پاکستان منتقل کیا تھا، خود کش حملہ آور کو 10 اور 11 اگست کی رات کو اپنی پاکستان آمد کے بعد عارف نے کسٹمز وئیر ہاؤس کے قریب ایک رہنے کی جگہ فراہم کی تھی۔

عارف کے مطابق شیران چاہ بہار کا رہائشی رسول بخش اس حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا، ملزم نے یہ بھی انکشاف کیا کہ سال 2019 میں گوادر کے پی سی ہوٹل پر ہونے والے حملے میں ملوث چار دہشت گردوں کو بھی ان کے والد نے منتقل کیا تھا۔

سی ٹی ڈی کی جانب سے اس سے پہلے بھی اس نوعیت کے گرفتاریوں کا دعوی کیا گیا ہے، تاہم اس طرح کے دعویٰ کے بعد بلوچ حلقوں کی جانب سے سی ٹی ڈی و فورسز کے ان کاروائیوں کی سختی سے مذمت کی گئی، ان حلقوں کے مطابق سی ٹی ڈی کے کارروائیوں میں جن افراد کی گرفتاری ظاہر کی گئی ہے وہ پہلے سے لاپتہ افراد ہیں۔

سی ٹی ڈی حالیہ کچھ مہینوں کے دورانیہ میں درجنوں افراد کو مقابلے میں مارنے کا دعویٰ بھی کیا ہے جبکہ بعدازاں مقابلے میں مارے جانے والے افراد کی شناخت پہلے سے زیر حراست افراد سے ہوئی ہے۔

خیال رہے کہ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں زیر تعمیر سی پیک روڈ ’ایکسپریس وے‘ پر چینی انجینئرز کی گاڑی پر ایک خودکش حملہ ہوا تھا جسکی ذمہ داری بلوچستان میں متحرک مسلح آزادی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی قبول کی تھی۔

بی ایل اے نے میڈیا میں جاری اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس حملے میں کم از کم 9 چینی انجنیئر اور ورکر ہلاک و متعدد زخمی ہوئے۔

ترجمان جیئند بلوچ نے کہا کہ یہ حملہ بی ایل اے کے مجید بریگیڈ کے بہادر فدائی سربلند بلوچ عرف عمر جان نے کرکے عظیم شہادت قبول کی۔