جبری گمشدگیاں بلوچستان مسئلے کی بگاڑ کا اہم سبب ہے – لواحقین لاپتہ کبیر بلوچ

155

لاپتہ کبیر بلوچ کے لواحقین نے کہا ہے بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور غیر انسانی اور غیر جمہوری سلوک و جبری گمشدگیوں  میں اضافہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ریاست اور ریاستی ادارے بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے مزید بگڑنا چاہتے ہیں، افہام و تفہیم اور بات چیت کے بجائے طاقت کی بے دریغ اور اندھا دھند استعمال کے ذریعے بلوچ قوم کو زیر کرنا چاہتے ہیں۔

 بیان میں کہا گیا کہ بلوچستان میں جب تک اعتماد سازی کے لئے اقدامات نہیں کئے جائیں گے، فوجی تناو کو کم نہیں کیا جائے گا، باہمی اعتماد کے لئے طریقہ کار طے نہیں کیا جائے گا تب تک بلوچستان کے مسئلے کا پرامن حل ممکن نہیں کیونکہ بندوق اور اتنی بڑی تعداد میں فورسز کی موجودگی میں بات چیت کا مطلب ہے کہ زور آور بزور طاقت اپنی شرائط پر بات منوانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی اور جبری گمشدگیوں کا خاتمہ بلوچستان کے مسئلے کا مکمل حل نہیں لیکن ماحول کو سازگار بنانے کے لئے کسی حد تک مددگار ثابت ہوسکتے ہیں۔ CBMs کے طور پر پہلے مرحلے میں تمام لاپتہ افراد کو رہا کیا جائے اور تمام خفیہ اور ظاہری جاسوسی و جارحیت کا سلسلہ بند کیا جائے۔ لواحقین نے مزید کہا کہ ہم گزشتہ 12 سال سے کبیر بلوچ اور ان کے ساتھی مشتاق بلوچ اور عطاء اللہ بلوچ کی بازیابی کے لئے سیاسی طور پر آواز اٹھا رہے ہیں لیکن ہماری آواز ریاستی اداروں کے کانوں تک نہیں پہنچ رہی اگر پہنچ رہی ہے تو وہ جان بوجھ کر بہرے بننے کی کوشش کررہے ہیں، لاپتہ افراد کی لواحقین کئی مرتبہ اسلام آباد جاکر حکمرانوں کے دروازے اس امید کیساتھ کھٹکھٹایا ہے کہ شاید کوئٹہ اور خضدار سے ہماری آواز اور ہماری چیخ و پکار اسلام آباد میں تخت نشین ہونے والوں تک نہیں پہنچ پاء رہی، اسلام آباد وہ گئے لیکن وہاں بھی ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوئی، جب وزیراعظم لواحقین سے اپنا وعدہ وفا نہیں کرسکتے پھر قومی جنگ میں مصروف عمل بلوچ کس طرح اس ریاست کے وعدوں اور دعووں پر یقین کرینگے۔ جب وزیراعظم نصراللہ بلوچ، سمی، ماہ زیب اور سیما سے کئے گئے وعدوں پر عملدرآمد نہیں کراسکتا،لاپتہ افراد کے لواحقین اور کچھ نہیں مانگ رہے نہ اقتدار میں شراکت داری چاہتے ہیں اور نہ ہی فنڈز اور مراعات چاہتے ہیں بلکہ وہ اپنے لاپتہ لخت جگروں کی بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں جو ایک آئینی اور قانونی مطالبہ ہے ان کا یہ مطالبہ پورا نہیں ہورہا ہے پھر ریاست کس جادوئی چھڑی سے بلوچستان کے گھمبیر قومی، سیاسی، سماجی، معاشی مسائل کا حل نکالے گی۔ لواحقین نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے لاپتہ کبیر بلوچ، عطاء اللہ بلوچ مشتاق بلوچ، سعد اللہ بلوچ سمیت بلوچستان سے لاپتہ ہزاروں سیاسی کارکنوں کی بازیابی کے لئے کردار ادا کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں بلا تاخیر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں، جبری گمشدگیوں کے ذریعے اجتماعی سزا دینے کے ریاستی پالیسیوں کے خلاف موثر اقدامات اٹھائیں۔