ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف برطانیہ میں مظاہرہ کیا گیا – بی این ایم

157

بلوچ نیشنل موومنٹ کے ترجمان نے کہا ہے کہ برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں برطانوی وزیراعظم ہاؤس کے سامنے پارٹی کی جانب سے ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بارہ سالہ جبری گمشدگی کے موقع پر ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ مظاہرے میں بی این ایم کارکناں کے علاوہ بی آر پی، بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن، ورلڈ سندھی کانگریس کے کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔

بی این ایم برطانیہ کے صدر حکیم بلوچ نے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بی این ایم سب کے ساتھ مل کر جدوجہد کیلئے تیار ہے۔ بلوچ سندھی فورم اس کی ایک مثال ہے۔ ہمارا آج کا احتجاج ہمارے لیڈر ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی طویل بارہ سالہ جبری گمشدگی کے خلاف ہے۔ ہم سب ایک پلیٹ فارم سے جدوجہد کر رہے تھے۔ ایک دن خبر آئی کہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو پاکستانی خفیہ اداروں نے اٹھا کر جبری لاپتہ کیا ہے۔ بی این ایم کے دو اور رہنما غفور بلوچ اور رمضان بلوچ بھی ایک دہائی سے زائد عرصے سے جبری لاپتہ ہیں۔ اسی طرح اسٹوڈنٹ لیڈر ذاکر مجید بلوچ بارہ سالوں سے لاپتہ ہے۔

حکیم بلوچ نے کہا کہ بے شمار بلوچ اور سندھی سیاسی کارکن اٹھائے گئے، لاپتہ کئے گئے اور قتل کئے گئے ہیں۔ صرف اسی مہینے بیس سے زائد بلوچوں کو اٹھا کر لاپتہ کیا گیا ہے۔ ان مظالم پر بات کرنے والوں کو بھی جبری گمشدہ کیا جاتا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے۔ راشد حسین کو عرب امارات سے پاکستان کے حوالے کیا گیا۔ وہ تین سال سے لاپتہ ہے۔ ایک اور مسئلہ جس سے ہم بلوچ اور سندھی دونوں متاثر ہیں، وہ ہے چین پاکستان اکنامک کوریڈو (سی پیک) کی صورت میں چین کا بلوچستان اور سندھ پر حملہ۔ گوادر میں مقامی لوگ پانی اور بجلی کیلئے احتجاج کر رہے ہیں۔ بلوچوں نے گوادر کیلئے جنگ لڑی ہے، آگے بھی لڑیں گے۔ گہرام نادل کو بارہ جون کو اغوا کیا گیا اور پندرہ جون کو ان کے خاندان کو ایک کال آئی کہ آکر گہرام کی لاش لے جائیں۔ اسی طرح ایک جعلی انکاؤنٹر میں بولان میں چار لاپتہ بلوچوں کو شہید کیا گیا۔ گیارہ سالہ مراد امیر کے ساتھ پاکستانی آرمی نے ریپ کی۔ ہمیں لوگوں کو بتانا چاہیئے کہ ہم یہاں کے ٹیکس دینے والے ہیں۔ ہمیں ان کو آگاہ کرنا چاہیئے کہ وہ اس ٹیکس سے پاکستان کی مدد کرکے ہماری ہی نسل کشی کی جارہی ہے۔

بی آر پی کے منصور بلوچ نے کہا کہ پاکستانی مظالم کے خلاف ہمیں اکھٹے ہوکر جدوجہد کرنا چاہئے۔ بی ایچ آر سی کے صمد بلوچ نے اپنے خطاب میں بھی اتحاد پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں جو ظلم و جبر ہورہی ہے، اس کے بارے میں دنیا کو آگاہی دیں۔

مہناز بلوچ نے کہا کہ ہماری بچیاں اور خواتین بلوچستان اور پاکستان کے پریس کلبوں کے سامنے دربدر ہیں۔ پاکستان کی ظلم و زیادتی کی وجہ سے وہ سڑکوں پر بیٹھ کر رو رہی ہیں۔ ہم ادھر بیرونی ممالک میں بیٹھے ہیں تو ہمیں چاہئیے کہ ہم سب ان کی آواز بنیں۔ ہمیں اپنی چھوٹی چھوٹی اختلافات کو ختم کرکے اکھٹے ہوکر ایک مضبوط آواز بنانا چاہیئے۔

ورلڈ سندھی کانگریس کے ڈاکٹر ہدایت بھٹو نے کہا کہ پاکستان ہم بلوچوں اور سندھیوں پر یکساں مظالم ڈھا رہی ہے۔ درحقیقت پاکستان صرف بلوچستان اور سندھ میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں دہشت گردی میں مصروف ہے۔ برطانیہ میں بھی پاکستان کی تربیت یافتہ دہشت گرد آکر وحشت پھیلاتے ہیں۔ دنیا کو اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ پاکستان پوری دنیا کیلئے ایک خطرہ ہے۔