منصور کی نسبت صد پارہ سے کیوں؟ – بیبرگ بلوچ

386

منصور کی نسبت صد پارہ سے کیوں؟

تحریر: بیبرگ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

چند روز سے سوشل میڈیا میں بلوچوں کی طرف سے منصور بلوچ کیلئے آواز اٹھایا جارہا ہے۔ریاست کی طرف سے جب بھی کوئی ایسا قدم اٹھایا گیا۔ہم فوراََ اسے پنجاب کے ساتھ ملا دیتے ہیں۔اور یہاں اپنا “کَلی” پنجاب کے ساتھ ٹانگ رہے ہیں۔کیا آج تک ہمیں یہ احساس نہیں ہوا ہے۔کہ پنجاب قابض ہے اور ہم مقبوضہ، پنجاب حاکم ہے اور ہم محکوم ،بلوچوں کو نسل پرستی کا طعنے دینے والے انتہا درجے کے پاکستانی نسل پرست ہیں۔جو دو قومی نظریے اور اکھنڈ بھارت کے پیدوار ہے۔اور نسلی و قومی پاکستانی ہیں۔جتنا بڑا انقلابی پنجاب میں بلوچ کے حق میں بولے آپ زرا کھرچ کے اندر دیکھیں گے۔تو پاکستانیت کھوٹ کھوٹ کر بھری ہوگی۔پاکستانی لبرل جو انسانیت اور اظہار رائے آزادی کے بڑے علمبردار ہیں۔حقیقت میں انتہائی بلوچ دشمن اور پاکستان پرست ہیں۔بلوچ کے معاملے میں جی ایچ کیو سے لیکر کونسلر تک سب پاکستانی ہیں۔کوئی بلوچ کے دفاع میں کھڑا نہیں ہوگا۔چاہے ہم خود کو رنجیت سنگھ سے مناسبت دیں، جناح سے لیاقت علی خان سے یا پھر علی صد پارہ سے۔

اسلام آباد کئی ہفتے مذہبی پنجابیوں کے ہاتھوں بند رہنے کے بعد بھی آرمی چیف نے کہا اپنے لوگ ہیں۔انکے خلاف آپریشن نہیں کرسکتے۔اور گزشتہ آٹھ جون کو مسنگ پرسنز احتجاج میں سب نے دیکھا کہ کیا کیا ہورہا تھا۔وہ بھی نصف دن میں۔شاید آپ نے کھبی نہیں سنا ہوگا کہ پنجاب سے اجتماعی قبریں ملی ہو۔لیکن ہمارے ہاں کئی مثالیں موجود ہیں۔ہمارے وسائل کو لوٹ کر بدلے میں ہمارے لیئے اجتماعی قبریں بنارہے ہیں۔اور ایک ہم کہ عجیب سے عجیب تر لوگ، موازنہ کرتے کرتے تھکتے نہیں بلکہ خود کو دانشور منوانے کے چکر میں ہیں۔

منصور کا موازنہ صدپارہ سے کرنے والے سن لیں نہ ہی منصور کا تعلق پنجاب سے تھا۔اور نہ ہی صدپارہ بلوچ تھا۔صدپارہ مہم جُو تھا۔منصور پہاڑوں کا دلدادہ اور عاشق تھا۔صدپارہ نام کمانے کے شوق سے پہاڑوں پہ چڑھتا تھا۔منصور کاشجرہ نسب ہی پہاڑوں سے منسلک ہے۔صدپارہ پاکستان کا نام روشن کرنے چلا تھا۔منصور نے بلوچستان کو سرسبز بنانے کی ٹھان لی تھی۔ثابت یہی ہوتا ہے صدپارہ پیشہ ور تھا، منصور دھرتی کے عاشق تھے۔جو اپنے حیثیت کے مطابق دھرتی کی خدمت کرتے تھے۔ایک حاکم کے قبیلے سے اور دوسری محکوم قوم سے تعلق رکھتا ہے۔بھلا حاکم و محکوم کا کیا موازنہ؟

براہوئی زبان میں ایک ضرب المثل ہے کہ “او پاہک نے دپّرہ نی پاسہ ای پُھلی آ اُچ سوار مریوہ”۔وہ تو کہتے ہیں کہ تم ہم سے نہیں، ہم زبردستی اُن سے کیوں بنیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں