انسان اور اُسکا کردار – زرینہ بلوچ

515

انسان اور اُسکا کردار

تحریر: زرینہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

دُنیا میں بہت سے پھول موجود ہیں سب کے مختلف نام، مختلف خوشبو اور مختلف رنگت ہیں۔ ہر ایک پھول اپنا الگ پہچان رکھتا ہے اور اسکی الگ سی خوبیاں ہیں، سارے پھول خوبصورت ہیں لیکن سب پھولوں کا سردار گلاب کا پھول ہے ، سب اُسکے دیوانے ہیں۔

جب کسی کو اپنے مُحبت کا اظہار کرنا ہوتا ہے یا جتانا ہوتا ہے تو اپنے محبوب یا محبوبہ کو گلاب دے دیتا ہے۔ کہنے کےلئے صرف ایک پھول ہے لیکن اُس ایک پھول میں بہت سے احساس اور جذبات ہوتے شاید کچھ لوگ اُن جذبات کو زبان پر لا نہیں پاتے یا کہنے سے ڈرتے ہیں اپنے جذبات کو ایک پھول کے زریعے بیان کرتے ہیں۔

اسی طرح دنیا میں بہت سے لوگ موجود ہیں سب کے الگ نام ،الگ پہچان ،الگ خوبیاں اور مختلف خاندان ہیں ، ہر انسان کی ایک الگ پہچان اور شخصیت ہوتی ہے، کچھ لوگ بہت اچھے کچھ بُرے اور کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کے زندگی کے طور طریقے لوگوں کی زندگیاں بدل دیتی ہیں ۔ لوگوں کو مجبور کرتے ہیں کہ انکے بارے میں سوچیں اور انکے جیسے بننے کی کوشش کریں، دنیا کا سب سے عظیم انسان “حضرت محمد صلی علی وعلی وسلم” ہے آج بھی اُنکی مثالیں موجود ہیں، آپؐ کی مثالیں ہر کوئی دیتا ہے، مسلم غیر مسلم سب دیتے ہیں۔

کسی جگہ “سرباسورتھ سمتھ “کہتے ہیں۔ “کائنات میں اگر کوئی شخص یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اُس نے منصفانہ طور پر ایمانداری سے حکومت کی ہے، تو وہ صرف “محمدؐ” کی ذات ہے”

ہمارے پیارے نبی نے اچھے کام کئے، سب کے ساتھ ایک طریقے سے پیش آتے تھے، ان پر مسلمان اور یہودی سب جان نھچاور کرتے کیونکہ انکے سیرت ایسی تھی ۔

“چی گویرا” کی ہم اگر مثال لیں، وہ کتنا بہادر تھا اور اسکے زندگی گزارنے کا طریقہ سب سے الگ تھا سب اختیار اسکے ہاتھ میں تھے لیکن پھر بھی عام انسانوں کی طرح رہتے تھے۔

اور ایسے بہت سے لوگوں کی مثالیں موجود ہیں، جو مرنے کے بعد بھی زندہ ہیں مثلاً عبدالستار ایدھی، نیلسن منڈیلا،بانک کریمہ ،اوٹو، بسمارک،خلیل جبران، انسان مر سکتا ہے جسمانی طور پر جُدا ہوسکتا ہے لیکن انسان کا نظریہ اور سوچ کھبی ختم نہیں ہوسکتا وہ انسان کو صدیوں تک زندہ رکھتا ہے۔

مرنے کے بعد بھی اگر آپ امر ہو کر زندہ رہنا چاہتے ہیں ، تو اپنے آپکو تراشو، خود کو سب سے مختلف رکھو، اپنا درد اور تکلیف ہر کوئی محسوس کرتا ہے لیکن جس انسان میں انسانیت ہوتی ہے یا احساس نام کا شے اُس میں موجود ہوتا ہے تو وہ دوسروں کے درد و تکلیف کو اپنا سمجھتا ہے اور کوشش کرتا ہے مشکلات کو ختم کرنے کی۔

جس طرح سونا اپنے اصل رنگ میں آنے سے پہلے بہت سے درد وتکلیف سے گذرتا ہے، وہ آگ کی تپش کو برداشت کرتا ہے، تب جا کر وہ ایک قیمتی شے بنتا ہے۔اسی طریقے سے اگر انسان کو اپنا کردار بنانا ہوتا ہے یا الگ پہچان تو اُسے بہت سے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے ، تب جا کر انسان شخص سے شخصیت بن جاتا ہے۔

کوشش کریں، اپنا ایک ایسا کردار بنایں کہ لوگ آپ کے شخصیت سے مُتاثر ہو ں اور آپکی طرح بننے کی کوشش کریں آپ سے ملنے کی خواہش رکھیں۔آپکو اپنا آئیڈیل اور رول ماڈل سمجھنے لگیں۔ مرنے کے بعد بھی صدیوں تک کردار زندہ رہے اور مثالیں ہر کوئی دیتا رہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔