بلوچستان میں انقلاب – کہور بلوچ  

429

بلوچستان میں انقلاب

 تحریر : کہور بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

بقول لینن انقلاب اس وقت آتاہے جب انقلابی حالات تیار ہوتے ہیں۔ انقلابی حالات کیا ہیں ؟ ریاست اور عوام کے درمیان تضادات،حکمران طبقوں کے درمیان اپنے تضادات،معروضی اور موضوعی حالات کا تیار ہونا ہے۔ معروضی حالات کا مطلب سماج میں غربت، بیروزگاری ،ظلم و ناانصافی ،ریاستی دہشت گردی،قومی اور طبقاتی جبر اور بہت سے مسائل ہیں جوعوام کو مزاحمت پر مجبور کرتے ہیں وہ اس ظالم ریاست کے خلاف بغاوت پر تیار کرتے ہیں ۔

موضوعی حالات کا مطلب ہے کہ انقلابی پارٹی کا موجود ہونا ہے۔انقلابی پارٹی ان معروضی حالات سے فائدہ اٹھا کر عوام کو شعور دیتا ہے کہ آپ کے سارے ظلم و جبر اور مسائل کا ذمہ دار یہ ظالم ریاست اور یہ نظام ہے ۔

اگر ہم بلوچستان کی حالیہ تحریک کو دیکھیں تو ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ بلوچ سرزمین پر یہ سارے معروضی حالات موجود ہیں۔ پاکستانی ریاست نے بلوچستان پر جبری قبضہ کیا ہے اور بلوچ عوام کو غربت ، بے روزگاری،ظلم و جبر کا شکار کررہا ہے اور بلوچ قوم کی نسل کشیُ کر رہا ہے۔

لیکن صرف معروضی حالات کا موجود ہونا انقلاب نہیں لا سکتا ہے جب تک موضوعی حالات یعنی انقلابی پارٹی اور انقلابی نظریہ موجود نہ ہو۔ انسانی تاریخ میں دو عظیم انقلابات آئے ہیں جنہوں نے دنیا میں مظلوم قوموں اور مظلوم طبقات کو راستہ دکھایا کہ کیسے مظلوم قومیں اور مظلوم طبقات اس ظالم ریاست سے لڑ سکتے ہیں اور اپنے حقوق حاصل کر سکتے ہیں۔

پہلا انقلاب ۱۹۱۷ میں روس میں بالشویک پارٹی اور لینن کی رہبری میں سوشلسٹ انقلاب ہے، پہلی بار انسانی تاریخ میں عام محنت کش اور مزدور طبقات نے ریاست ،سیاست اور معیشت کو اپنے کنٹرول میں رکھا اور ساری دولت کو اجتماعی ملکیت میں ڈھال دیا ۔
دوسرا انقلاب ۱۹۴۹ میں چین میں کمیونسٹ پارٹی اور ماؤزے تنگ کی رہبری میں ایک نئی جمہوری انقلاب کامیاب ہوا اور بعد میں سوشلسٹ ریاست کی تشکیل دی ہے ۔اگر ہم دونوں انقلابات کو دیکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ معروضی اور موضوعی حالات تیار تھے اور پارٹی نے ان حالات سے فائدہ اٹھا کر عوام کو متحرک کیا اور انقلاب برپا کیا ۔

اگر ہم بلوچستان کی حالات کو دیکھیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ بلوچ قومی فوج اور پارٹی کا موجود ہونا اس چیز کی نشاندہی کرتا ہے کہ بلوچ قومی آزادی کی جنگ اپنے دفاعی پوزیشن سے آگے نکل کر حملہ آورانہ پوزیشن میں آ گیا ہے اور دشمن پر اپنے گوریلا تدبیر اور حکمت عملی سے حملہ کر رہا ہے اور اس ریاست کی کمر توڑ رہا ہے ۔یہ ریاست آزادی کی تحریک کو آسانی سے اس لیے کچل نہیں سکتا ہے کیونکہ یہ تحریک عوام سے مربوط ہے۔ جہاں تحریک کوعوم کی حمایت حاصل ہو گی وہاں دنیا کی طاقتور ترین فوج بھی اس تحریک کو کچل نہیں سکتا ہے ۔ یہ تاریخ نے ثابت کیا ہے ۔ یقینا” راستہ پر پیچ و خم ہے لیکن مستقبل روشن ہے ۔ہمیں جلدبازی کے فتح کا خیال ترک کرنا چاہیئے ، یہ ایک لمبا سفر ہے۔

انقلاب اپنی کردار میں پرتشدد ہوتا ہے ۔ یہ ایک ایسی بغاوت ہے جس میں عوام اور محنت کش طبقات حکمران طبقوں کا تختہ الٹ دیتے ہیں۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ حکمران طبقات اقتدار اور دولت رضاکارانہ طور پر کبھی نہیں چھوڑتے۔اس لیے عوام اور محنت کش طبقوں کو انقلاب کی راستے جانا ہوتا ہے۔

بلوچستان کی آزادی کی تحریک ایک خالص قومی آزادی کی تحریک ہے جو پاکستان کے جبری قبضے کے خلاف اور بلوچ قوم کی آزادی کیلئے ہے ۔ یقینا” اس کا ہدف اسلام آباد پر قبضہ نہیں کرنا ہے بلکہ بلوچستان سے پاکستانی فوج کو نکالنا ہے۔کیونکہ پاکستان کی فوج نے بلوچستان پر جبری قبضہ کیا ہے ۔ اس لیے بلوچ قومی تحریک کا ہدف وہ ریاستی مشینری ہے جو بلوچستان پر اپنا قبضہ جمائے ہئےہے ۔

کسی بھی انقلاب کو نقل نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ ان کے تجربات سے سیکھ سکتے ہیں ۔جو انقلابات روس اور چین میں آئےتھے وہ خالص طبقاتی بنیاد پر تھے، جہاں مزدوروں اور کسانوں اور کمیونسٹ پارٹی کی رہبری میں ریاست پر قبضہ کیا گیا تھا اور سوشلسٹ ریاست کی تکمیل کی گئی تھی ۔لینن اور ماؤزےتنگ نے قومی جبر کو طبقاتی جبر کا ایک حصہ قرار دے دیا اور قومی جدوجہد کو طبقاتی جدوجہد کی بنیاد بنا کر اور بار بار زور دیا کہ مظلوم قوموں کی آزادی اسی وقت ممکن ہے جب وہ طبقاتی جدوجہد سے منسلک ہوکر اس ظالم ریاست کا تختہ الٹا دیں اور ایک نئی حقیقی جمہوری ریاست کی تشکیل کریں اور مظلوم عوام اور محنت کش طبقات اقتدار پر قبضہ کریں اور قومی تضادات ، طبقاتی تضادات،رنگ و نسل کے درمیان تضادات ،اقلیتی مذاہب کے درمیاں تضادات اور بہت سے تضادات کو حل کر سکتے ہیں ۔

پاکستان اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے گذر رہا ہے ۔ پاکستان جب سے بنا ہے، پاکستان ساری مظلوم قومیتوں کیلے ایک جہنم ہے ۔پاکستان اور پنجابی ریاست نے سارے مظلوم قوموں پر زور و زبردستی قبضہ کیا ہے اور ان کی آزادی ان سے چھین لی ہے۔ یقینا” پاکستان تو پنجاب ہے کیونکہ پنجابی شاونسٹ قوم سارے پاکستان پر حکومت کر رہا ہے ۔اور ان کی فوج پاکستان کے سارے ریاست ، معیشت اور سیاست پر قابض ہے ۔تو اس لیے سارے مظلوم قوموں کی ظلم و جبر کا ذمہ دار پنجابی ریاست اور اس کی فوج پر ٹہرتا ہے۔

ضرور پنجاب میں بھی طبقاتی تضادات اور بہت سے معاشی ، سیاسی مسائل ہیں ۔اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ پنجاب بلوچستان کے سارے معدنیات لوٹ رہا ہے اور پنجاب کے محنت کش عوام پر خرچ کر رہے ہیں اور پنجاب ایک جنت کی مانند ہے، ایسا نہیں ہے ۔ بلکہ پنجاب کی سرمایہ دار اور جاگیر دار طبقات اور ان کے فوجی جرنیل بلوچستان کی معدنیات نکال کر عالمی مارکیٹ میں بیچ کر منافع کما رہے ہیں اور اپنے بینک بیلنس بڑھا کر عیاشیاں کر رہے ہیں ۔

پنجاب کے سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور فوجی جرنیلوں کو پنجاب کے محنت کش طبقات اور عوام سے کوئی محبت نہیں ہے ۔بلکہ انہیں اپنی دولت اور اقتدار سے محبت ہے ۔ یہی پنجاب کے حکمران اور جرنیل پنجاب کے محنت کش عوام کو ہر وقت بے وقوف بناتے ہیں کہ آؤ فوج میں بھرتی ہو جاؤ اور پاکستان کیلے جنگ کرو آپ شہید ہو جاؤ گے اور جنت میں جاؤ گے ۔ یہی محنت کش عوام فوج میں بھرتی ہو کر اور ان کو برین واش کر کے بلوچستان میں بھیج کر بلوچ عوام کی نسل کشی کیلئے بھیجتے ہیں اور دوسری طرف پشتونوں کو ایسے ہی استعمال کرکے بلوچ نسل کشی کی جا رہی ہے ۔

بلوچ قومی آزادی کی جنگ پنجابی محنت کش اور مظلوم طبقات کے خلاف نہیں ہے بلکہ یہ پنجابی سرمایہ داروں ، جاگیرداروں اور اور ان فوجی جرنیلوں کے خلاف ہے جو کہ سارے پاکستان میں مظلوم قوموں اور مظلوم طبقات پر ظلم و جبر کر رہا ہے ۔ اس لیے پنجاب کے محنت کش اور مظلوم عوام کا فرض ہے کہ وہ برین واش مت ہو جائیں اور اپنے دشمن کا پہچان کریں ۔ یہ پنجاب کی مظلوم اور محنت کش عوام پر انسانی اور اخلاقی فرض ہے کہ وہ اس ریاست کے ظلم و جبر کے خلاف اٹھیں جو کہ بلوچوں ،سندھیوں اور پشتونوں کی نسل کشی کر رہا ہے۔

بلوچ قومی آزادی کی تحریک وہ واحد تحریک ہے جو کہ پاکستانی ریاست کے سامنے نہ جھکنے والی تحریک ہے اور بلوچ عوام نے کبھی پاکستان کی ریاست کی غلامی کو قبول نہیں کیا اور ہر وقت اپنے سر زمین اور عوام کی تحفظ کیلے اپنے جانوں کا نظرانہ پیش کیا ۔ ان ۲۰ سالوں میں پاکستانی ریاست نے ہزاروں کی تعداد میں بلوچوں کو شہید کیا اور ہزاروں کو لاپتہ کیا گیا اور اور ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں اور جنگلوں میں پھینک دی ۔ پھر بھی بلوچ قومی تحریک پیچھے نہیں گئی اور روز بہ روز ہزاروں کی تعداد میں نوجوان ، بھوڑے ، عورتیں اور سارے بلوچ عوام اس تحریک میں شامل ہو رہے ہیں ۔ یہ بلوچ قومی تحریک کیلے ایک کامیابی کی نشانی ہے اور پاکستان کی ریاست کی ناکامی ہے کیونکہ جہاں ظلم و جبر اور انسانوں کا بے گنا قتل عام ہو گا تو ایک فطری عمل ہے کہ اس ظلم و جبر کی خلاف عوام مزاحمت کرتے ہیں ۔

ہم دیکھتے ہیں جب مشرف نے غرور اور اپنی فوجی طاقت پر گھمنڈ میں نواب اکبر بکٹی کو شہید کیا تو کیا بلوچ تحریک ختم ہوا ؟ یقنا” نہیں ۔تحریک اور زور پکڑ گئی اور ہزاروں کی تعداد میں بلوچ عوام پہاڑوں پرگئے اور بعد میں شہید غلام مممد اور ان کے ساتھیوں کو شہید کیا تو تحریک اور آگے بڑھ گئی، اور حال ہی میں بانک کریمہ بلوچ کا کینیڈا میں قتل اس عمل کی نشاندہی کرتا ہے کہ کس طرع یہ ریاست پاگل پن اور بھوکلاہٹ کا شکار ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ ایک انقلابی عورت کو قتل کرنا سارے تحریک کو ختم کرنا ہے یہ ان کی بھول ہے ۔ ہم نے دیکھا کہ بانک کریمہ کے قتل کے ردعمل میں بلوچستان بلکہ پاکستان اور دنیا بھر میں عوام نے احتجاج کیا اور بلوچ عورتوں نے یہ نعرہ دیا کہ “تم کتنے کریمہ مارو گے ہر گھرسے کریمہ نکلے گا ۔ یہ ایک انقلابی نعرہ تھا ۔اس واقعے نے بلوچ عورتوں اور عوام کو تحریک سے اور زیادہ جوڑ دیا ۔

ابھی وقت آگیا ہے بلوچ قومی تحریک کو پاکستان کے سارے مظلوم قوموں اور مظلوم طبقات کو اکھٹا کر کے ایک متحدہ محاذ تشکیل دی جائے تاکہ ایک بڑی عوامی طاقت بن کر اس ریاست کو چاروں طرف گھیراو کر کے اس کو شکست دی جائے ۔کیونکہ حالات اس حد تک پہنچ گئے ہیں اس پاکستانی ریاست کے اندر سارے مظلوم قومیں خوش نہیں ہیں ۔ دوسری طرف سندھ کے مظلوم قوم اور پشتون قوم کی تحریک اس عمل کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ قومیں بھی اس ریاست سے خوش نہیں ہیں ۔ بلوچ قومی تحریک کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیئے اور ان کے اندر کام کرنا چایئے اور ان کو انقلابی راستہ دکھانا چاہے کہ بغیر انقلابُ اور مزاحمت کے علاوہ آپ اپنی آزادی نہیں لے سکتے۔ کیونکہ سارے مظلوم قوموں نے پاکستان کی ۷۰ سالوں کی تاریخ میں سارے پرامن راستوں کا تجربہ کیا لیکن ان کو کچھ حاصل نہیں ہوا اور پھر بھی غلامی کا طوق ان کے گلے میں رکھا گیا ۔

وہ دن دور نہیں جب بلوچ قوم اپنی آزادی حاصل کرے گا اور آزاد بلوچستان کی ریاست کا قیام ہو گا اور بلوچ ریاست ایک خودمختار اور جمہوری ریاست ہو گی۔ بلوچ ریاست اپنے ہر شہری کے حقوق کے تحفظ کا ضامن ہو گا ۔ ہر شہری کے سیاسی ، معاشی ، مذہبی ، رنگ و نسل کا امتیاز ،مذہبی اقلیتوں کے عقیدوں کے تحفظ ،تحریر و تقریر کا حق ،اور بہت ساری حقوق کی تحفظ کی جائے گی ۔ بلوچ عوام اپنے ساحل و وسائل کا اپنا مالک ہو گا ۔ جو دولت بلوچستان کی سرزمین سے نکلے گی بلوچ ریاست اندرونی اور بیرونی ریاستوں سے تجارت کرے گی ان سے جو منافع نکلے گی وہ سب سے پہلے بلوچ عوام پر خرچ ہو گی ۔

بلوچ ریاست پنجاب سے تجارت کرے گی جو گیس اور تیل بلوچستان کی سرزمین سے نکلے گی ۔ کیونکہ یہ قدرتی معدنیات فطرت کی طرف سے ایک تحفہ ہے جو کہ انسانوں کو دیا گیا ہے کہ اسے بروئے کار لا کر مشترکہ طور پر کام کر کے ان کو نکال کر انسانوں پر منصفانہ طور پر تقسیم کیا جائے گا۔

بلوچ قوم خود غرض قوم نہیں ہے کہ وہ پنجاب کے عوام کو گیس نہیں دے گا ۔ یہ پنجابی حکمران طبقات کی خود غرضی ہے جو گیس بلوچستان کی سرزمین سے نکلتا ہے لیکن بلوچ قوم کو ابھی تک محروم کر دیا گیا ہے ۔ اگر ہم بلوچ قوم کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو وہ ہر وقت مشترکہ ملکیت پر یقین رکھتے تھے اور وہ کام کرتے تھے وہ مشرکہ طور پر بانٹتے تھے ۔ تو پاکستان کے سارے مظلوم قوموں اور مظلوم طبقوں پر فرض ہے کہ بلوچستان کی آزادی کی جنگ کی حمایت اور مدد کریں کیونکہ آزاد بلوچستان کا قیام اس ملک میں امن اور ساری خطے میں بلوچ ریاست امن کا گہوارہ ثابت ہو گا ۔مجھے لینن کا ایک قول یاد ہے جب بالشویک پارٹی زار شاہی کا حکومت کا تختہ گرا رہا تھا تو لینن نے عوام سے کہا “ ابھی نہیں تو کبھی نہیں ”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں