بانک کو نعروں میں نہیں اپنے عمل میں زندہ رکھیں – مہردل بلوچ

228

بانک کو نعروں میں نہیں اپنے عمل میں زندہ رکھیں

تحریر: مہردل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بانک کریمہ بلوچ، بلوچستان کی عظیم بیٹی نے بلوچ قومی غلامی کے خلاف جہد کا آغاز 2006 میں بی ایس او آزاد سے کیا۔ بانک ایک پرعزم اور پختہ ارادوں کی مالک خاتون تھی اور قومی غلامی کے خلاف جہد میں مخلص رہی، ہمیشہ بہادری کے ساتھ جہد کو آگے بڑھانے میں کردار ادا کرتی رہی اور پاکستان کے جبری قبضے و بلوچ قوم اور بلوچستان کی آزادی کا پیغام گلی گلی گھر گھر پہنچاتی رہی۔

چونکہ جہد آزادی کی تحریکیں ہمیشہ سے ہی فیصلہ کن، قاتلانہ اور پرتشدد رہی ہیں اسی طرح بلوچ قوم اور بلوچستان کی آزادی کی تحریک بھی شروع دن سے تشدد زدہ رہی ہے اور اس میں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ فرزندوں نے اپنے لہو سے بلوچ سرزمین کو رنگ دیا ہے اور بلوچ قوم کے غلامی کے خلاف آزادی کی تحریک کو دن بہ دن مظبوط اور پختہ کیا ہے۔

انہی لازوال قربانیوں میں سے ایک ہستی بانک کریمہ ہے، جن کے لہو کی خوشبو سے آج سارا بلوچستان مہک رہا ہے اور ہر بلوچ کا سر فخر سے بلند ہے۔

بانک کریمہ بلوچ کی شہادت کے بعد بلوچستان اور بلوچستان سے باہر بھی بانک کے لئے آوازیں اٹھائی گئی، فضاء میں ہر طرف بانک کے نام کے ہی نعرے لگائے جارہے تھے اور سننے میں آرہے تھے۔ بانک کی یاد میں شمع بھی روشن کئے گئے۔ مگر افسوس کہ فضاء میں وہ بانک کے نام کے نعرے اور وہ شمعیں جو بانک کی یاد میں روشن تھےزیادہ دیر نہ چل سکے۔ جن نعروں سے بلوچستان گونج اٹھا تھا اُن نعروں میں سے ایک نعرہ یہ تھا ” زندہ ہے بانک زندہ ہے “۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے بانک کیسے زندہ ہے؟ آیا بانک نعروں میں زندہ ہے یا بانک اُن شمعون کی روشنی میں زندہ تھی جو کچھ ہی دیر بعد بجھ گئے تھے، یا بانک ہمارے دل میں ہماری سوچ میں ہمارے عمل میں زندہ ہے؟

آج اگر ہم بلوچ قوم البرز سے لیکر ڈجی خان تک بانک کو نعروں اور شمعون میں زندہ رکھ رہے ہیں تو پھر بانک نے بالکل صحیح کہا تھا کہ ہم بلوچ ایک مردہ پرست قوم ہیں۔ بجائے کچھ ہی پل جلدبازی ہونے کے اگر ہم سوچ سمجھ کر بانک کریمہ بلوچ کی زندگی پر اک نظر ڈالیں تو ہمیں ایک عظیم لیڈر، اعلیٰ سوچ، پختہ نظریہ، قومی جہد میں ایک مخلص ساتھی، مشل راہ اور ایک نڈر اور بلند کردار نظر آئے گا۔ وہ کردار جس نے اپنی ساری زندگی بلوچ قوم اور بلوچستان کی آزادی کی جہد میں مخلصی، بہادری اور پختگی سے گزاری، بانک وہ کردار تھی جو وطن سے در بدر ہو کر بلوچ قوم اور بلوچ وطن بلوچستان کے لیے زندہ تھی اور آخر اپنے لہو کی خوشبو سے بلوچ وطن کو مہکا دیا۔

اگر ہم نے بانک کو زندہ رکھنا ہے تو ہمیں بانک کے زند کو بانک کے کردار کو اپنے اندر لانا ہے، اسی کردار ہی پر عمل کرنا ہے اور بانک کے چلتے ہوئے راستے پہ چل کر ہی بانک کو زندہ رکھ سکتے ہیں نہ ہی کچھ پل کیلیئے، شمعیں جلانے سے اور نہ ہی کچھ گھنٹے گلا پھاڑ کر نعرے لگانے سے۔

آج ہر بلوچ کو چاہیے کہ وہ بانک کو اپنے عمل میں زندہ رکھے اور بلوچ کے غلامی کے خلاف اور پاکستان کی بلوچ سرزمین بلوچستان پر بزور طاقت اور جبری قبضے کے خلاف بانک جیسے کردار کو اپنے اندر پیدا کرے اور عملی اور شعوری طور پر اور نظریاتی پختگی کے ساتھ اس جہد کا حصہ بنیں۔

اپنے اس چھوٹے سے تحریر کے آخر میں میں یہ کہنا چاہونگا کہ بلوچستان کے نام پر باہر بیٹھے کچھ بلوچوں کی بانک کریمہ بلوچ کی شہادت کے واقعے پر خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے اور اُن کی یہ خاموشی سوالات کو جنم دے رہی ہے اور بلوچ قوم کو چاہیے کہ وہ سوال کریں اُن سے جو آج صرف نام کے راہشون بن کے باہر بیٹھے ہوئے ہیں۔

دوسری طرف بلوچ سرزمین پر موجود بادشاہوں والی زندگی گزارنے والے بلوچوں نے تو صرف Twitter پر ایک tweet کو اپنا فرض سمجھ کر بیٹھے ہیں۔ ان سے تو گلہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ بلوچ قوم ان Twitter اور اپنی باتوں سے اسٹیج سجانے والے جھوٹے لیڈران سے دوری اختیار کریں اور اپنے اندر کے بلوچ کو پہچان جائیں کیونکہ آپ ہی خود کو منزل تک پہنچا سکتے ہیں اپنے عمل سے اور اپنے بلوچ کردار سے۔

جی ہاں بانک زندہ ہے، بانک جہد کی شکل میں زندہ ہے، بانک مزاحمت کی شکل میں زندہ ہے، بانک عمل کی شکل میں زندہ ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں