قصہ ایک باغی کا – حکیم واڈیلہ

729

قصہ ایک باغی کا

تحریر: حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ

31 دسمبر 1600 کو وجود میں آنے والی ایسٹ انڈین کمپنی جو کہ بظاہر مسالوں کی تجارت کے لئے بنائی گئی ایک برطانوئی کمپنی تھی جس نے گذرتے وقت کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں نہ صرف برطانوی راج کو متعارف کروایا بلکہ کروڑوں انسانوں کو برطانوئی سامراج کی غلامی کے اندھیروں میں بھی دھکیل دیا۔

مسالوں کے بیوپار سے شروع ہونے والی یہ کمپنی ہندوستان کے سیاسی مسائل میں مداخلت شروع کرتے ہوئے اٹھارہویں صدی سے لیکر انیسویں صدی کے نصف دورانیہ تک برطانوی سامراج کے ایجنٹ کے طور پر کام کرتی رہی اور اٹھارہ سو پچاس کے اواخر میں ہونے والی (انڈین میوٹینی) ایسٹ انڈین کمپنی کے ہندوستانی سپاہیوں کی معروف بغاوت کے بعد ختم ہوئی جس کے بعد ہندوستان پر براہ راست برطانوئی سامراج کی قبضہ گیریت کے دور کا آغاز ہوا۔

انیسویں صدی میں جہاں برطانوی راج کے ظلم نے ہندوستان کو اپنے بربریت کا شکار بنائے رکھا تھا تو وہیں ہندوستان میں برطانوئی قبضہ گیریت اور ایسٹ انڈیا کمپنی کیخلاف مقامی بغاوتیں بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ ہندوستان میں برطانوئی جزوی اور مکمل قبضہ گیریت کا دورانیہ جو کم و بیش تین سو سال طویل ہے اس دورانیہ میں ہندوستان میں سینکڑوں چھوٹی بڑی آزادی کی تحریکیں چلی ہیں۔ ان تحریکوں میں سے ایک اولاوا نرسیمہ ریڈی کی سربراہی میں آندرہ پردیش کے جغرافیائی علاقہ ریالاسیمہ میں انگریز سرکار کی قبضہ گیریت کیخلاف لڑی گئی تھی۔

نرسیمہ ریڈی کی کہانی پر سائرہ نرسیمہ ریڈی کے نام سے تیلوگو فلم (ہندی میں ڈب کی گئی) دیکھنے کا اتفاق ہوا جس میں نرسیمہ کے تاریخی کردار اور انگریز سرکار کی مکاریوں کو بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ نرسیمہ ریڈی کی بغاوت ( انڈین میوٹینی) سے ایک دہائی قبل کی کہانی ہے۔ نرسیمہ ریڈی جو ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوتے ہیں وہ اپنے علاقے کے کسانوں کی حالت زار دیکھتے ہوئے یہ اعلان کرتے ہیں ہم انگریزوں کو اس وقت تک لگان نہیں دینگے جب تک بارش نہیں ہوتی اور بہتر اناج کی پیداوار نہیں ہوتی۔

انگریز سرکار کے ایجنٹوں کو اس عمل سے اس بغاوت سے تو پہلے ہی انتہائی نفرت ہوتی ہے لیکن نرسیمہ ریڈی اپنے ہزاروں سپاہیوں کے ہمراہ انگریز سرکار پر حملہ آور ہوکر انہیں تئیس جولائی اٹھارہ سو چھیالیس کو شکست سے دوچار کردیتے ہیں۔ برطانوئی سرکار نرسیمہ ریڈی کو انکے ساتھیوں سمیت چھ اکتوبر اٹھارہ سو چھیالیس کو مخبروں کی مدد سے گرفتار کرتے ہیں، نرسیمہ کے قریب ایک سو بارہ ساتھیوں کو پانچ سے چودہ سال کی سزا سنائی جاتی ہے۔ اور اس بغاوت، اس انقلاب، اس آزادی کی امید کو پیدا کرنے والی سوچ کے مالک نرسیمہ ریڈی کو بائیس فروری اٹھارہ سو سینتالیس کو سرعام پھانسی گھاٹ پر لٹکا کر مقامی لوگوں میں خوف و ہراس پھیلانے کے لئے اس کے سر کو اگلے تیس سالوں تک قلعہ کی دیوار پر لٹکا دیا جاتا ہے۔

اکثر ایسی کہانیاں ایسے واقعات ایسے جذبات، ایسے کردار ،ایسے شخصیات سوچنے پر مجبور کردیتے ہیں کہ کیسے کوئی اس قدر پختہ یقین و ایمان اُس آنے والے کل پر کرسکتا ہے جو ابھی تک اس نے دیکھا نہ ہو جس کی امید دور دور تک دکھائی نہ دے رہی ہو۔ جسے آپ کے قریب کے لوگ ہی ماننے سے سمجھنے سے یہاں تک کہ تصور کرنے سے بھی انکاری ہوں۔ لیکن پھر یہ خیال یہ سوچ زہن میں گردش کرتا ہے کہ وہ کردار جو امر ہوتے ہیں وہ شخصیات جو عظمت کے بلند و بالا مقام کو حاصل کرلیتے ہیں انکی سوچ انکا ایمان انکی پختگی اپنے لئے نہیں ہوتی، انکا کردار اپنے آنے والے کل کے بچاؤ یا بہترین مستقبل کا خواب اپنے لئے نہیں ہوتا بلکہ وہ تو زندہ ہی اسی لئے ہوتے ہیں کہ اپنی آنے والی نسلوں تک اپنی سوچ اور فکر کو منتقل کرسکیں۔ وہ یہ سوچ کر زندگی نہیں گذارتے کہ وہ انہیں آزادی کی روشن صبح دیکھنا نصیب ہو بلکہ وہ تو اس آزادی کے خواب کو اپنے بعد آنے والی نسلوں کی آنکھوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔

دنیا کی دیگر انقلابوں کی طرح بلوچ سرزمین پر بھی انقلاب و آزادی کی طویل جدوجہد میں ایسے ہزاروں روشن خیال شہداء نے اپنی زندگیاں اپنی جوانیاں اپنی خواہشات اپنے مستقبل صرف اس سوچ پر نچھاور کردیے ہیں کہ کل کا اگتا سورج بلوچ سرزمین کے وارثوں کو بہتر مستقبل کی روشنی فراہم کرے اور انہیں آزاد و بہتر سماج میں برابری کی زندگی نصیب ہوسکے۔

قبضہ گیر ہمیشہ ہی ایک جیسے زہن اور سوچ کے مالک ہوتے ہیں جن کا کردار وحشیانہ ہوتا ہے وہ مقامی لوگوں کی تذلیل کرنے کو انہیں کم درجے کا شہری بنائے رکھنے کو ان سے زبردستی ٹیکس وصولنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اور جب کبھی مقامی افراد اس وحشت، اس نسل پرستی، اس کمتری کو محسوس کرتے ہیں اور اس کیخلاف آواز بلند کرتے ہیں تو انہیں غدار، دہشت گرد، ڈاکو اور لٹیرا قرار دیکر انکی آواز کو دبانے کی خاطر انسانیت سوز کوشش کرتے ہیں انکا قتل عام کرتے ہیں، انہیں لاپتہ کرتے ہیں، ان پر انسانیت سوز تشدد کرتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں یہ نفرت ہی تو ہے جس نے اس ظالم و مظلوم کے رشتے کو ہزاروں سالوں سے زندہ رکھا ہوا ہے۔ یہ نفرت ہی تو ہے جس کی بنیاد پر آخر میں ہمیشہ ہی نفرت کو پھیلانے والا دوسرے انسانوں کو کمتر سمجھنے والا طاقت کے نشے میں چور رہنے والا اس تیزی سے آسمان سے زمین پر آ گرتا ہے کہ پھر سنبھلنا نا صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوجاتا ہے۔

اگر آج کے حالات میں بلوچ سرزمین پر جاری پاکستانی مظالم کو دیکھا جائے تو یقیناً یہ ایسٹ انڈین کمپنی کے مظالم سے ہزار گناہ زیادہ اور وحشت ناک ہیں۔ اور اسی نفرت اسی ظلم اسی جبر و بربریت کو روکنے کی خاطر بلوچ نوجوان ایسے انتہائی قدم بھی شعوری طور پختہ ایمان کے ساتھ اٹھاتے ہیں جس میں وہ خود فدا ہوکر بھی آنے والے نسلوں کے لئے ہزاروں سالوں تک مشعل راہ کا کردار ادا کرتے ہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔