ایک حقیقت ایک فسانہ – برزکوہی

1200

ایک حقیقت ایک فسانہ

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

(1)
پانچ دنوں تک سورج کا چہرہ چھپتے ہی، وہ پینتالیس کا قافلہ بغیر کسی روشنی کے سہارے خطرناک راستوں پر سفر کرتی اور صبح پھو پھٹتے ہی کوئی محفوظ جگہ تلاش کر وہاں چھپ جاتے، جیسے ہی سورج اپنی روشنی افق پر انڈیلنا شروع کرتی، انکے سر پر ہیلی کاپٹروں کی تھرتھراہٹ شروع ہوجاتی، ایسے عالم میں نیند و آرام محض نام کی رہ جاتی، آنکھیں آفتاب پر گڑھی رہتیں کہ وہ کب اپنا چہرہ سب سے اونچے پہاڑ کے پیچھے چھپانا شروع کردے۔ بھوک، پیاس اور تھکن کا مارا یہ قافلہ جب پانچ دنوں کی طویل، صبرآزما سفر کے بعد اپنے منزل تک پہنچا تو سات مہینے کے بعد پہلی بار کمانڈر شیہک کے چہرے پر ایک مسکراہٹ سج گئی اور وہ اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا “ساتھیوں ہم کامیاب ہوئے، ہمارا ایک ساتھی زخمی تک نہیں ہوا۔” بہت جلد وہ مسکراہٹ بے چینی میں تبدیل ہوگئی اور وہ اپنے نائب کمان سے مخاطب ہوکر بولا ” صبح ہوتے ہی ہر ساتھی کو اسکے اپنے اپنے کیمپ روانہ کرنے کا بندوبست کرو، مجھے نیٹورک جاکر حوال کرنا ہے۔”

بلند خیالات و حوصلوں کا مالک شیہک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا ایک تعلیم یافتہ بلوچ نوجوان ہے۔ جس نے اپنی مختصرسی ہی زندگی میں سیاست کے مختلف مدوجزر دیکھ لیئے اور سالوں قبل وہ اس فیصلے پر پہنچ گیا تھا کہ جب ظلم، وحشت اور تشدد اپنے حدوں کو پار کردے تو پھر اس سماج میں انصاف کے میزان کا توازن محض طاقت کے زور پر ہی حاصل کیا جاسکتا ہے، وحشی صرف وحشت کو ہی سمجھتی ہے اور تشدد کو تشدد ہی سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ تبھی اس نے مسلح مزاحمت کا راستہ اختیار کرلیا تھا اور اب سالوں بعد اسکے کندھوں پر چار بلوچ مسلح جماعتوں کے اتحاد براس کے ایک اہم ریجن کے کمانڈر ہونے کی ذمہ داری آن پڑی تھی جو دو سالوں سے وہ بہت احسن طریقے سے نبھا رہا تھا۔

شیہک تیز گامی سے نیٹورک کی جانب بڑھ رہا تھا، اسکے آنکھوں میں گذرے دنوں کی معصومیت، نظریئے کی سچائی کی چاشنی اور اسکے مہربان فطرت کی جھلک دور سے ہی دکھائی دے جاتی، اسکے چہرے کی درشتگی بتاتی کہ وہ اپنے عمر سے زیادہ بڑا ہورہا ہے، کھوئے ہوئے دوست، مکران کی آگ برساتی سورج، بے خواب راتیں سب نے اپنے آثار اسکے چہرے پر چھوڑ دیئے تھے۔ اسکے ہاتھوں کی سختی، ٹوٹے ناخن، ہتھیلوں پر مدہم پڑتی لکیریں اسکی جفاکشانہ زندگی کا بین کرتی دور سے دکھائی دیتیں۔

وہ مذکورہ مقام پر پہنچ کر سیٹلائٹ فون نکال کر سگنل ڈھونڈنا شروع کردتا ہے اور ایک نمبر ڈائل کرتا ہے۔ اسکے کال کو فورا اٹھا لیا جاتا ہے۔ یہ کال براس کے مرکز کو کی جاتی ہے۔ شیہک فوراً مختصر سے حوال کے بعد بولتا ہے “واجہ سارے دوست سلامت ہیں، اور وہ آگ دانستہ نہیں تھا، ہمیں بالکل اندازہ نہیں تھا کہ آگ اتنی پھیل جائے گی۔”

(2)

جس رات کمانڈر شیہک کی قیادت میں 45 مزاحمتکاروں کا قافلہ اپنے محفوظ پناہگاہ تک پہنچتا ہے، اس رات سے ٹھیک پانچ دن قبل 15 اکتوبر 2020 کو یہ پینتالیس افراد مکران کوسٹل ہائی وے کے قریب کھلے آسمان تلے بزی ٹاپ کے مقام پر گھات لگائے ہوتے ہیں۔ یہ دستہ دو ہفتے سفر کرکے وہاں پہنچا تھا۔ ان کے معلومات کے مطابق انکے ٹارگٹ کو پہنچنے میں ایک دن بھی لگ سکتا تھا اور یہ انتظار کئی دنوں تک بھی جاری رہ سکتا تھا۔ اب انکو انتظار کرتے کرتے چار دن ہوگئے تھے، سب کے پاس پانی کے بڑی بڑی بوتلیں تھیں اور کھانے کیلئے راشن میں کمانڈر نے سب کو آگ پر پکا سوکھا گندم، اور کوئلے پر بنا روایتی بلوچی روٹی “کرنو” مہیا کیا۔ انتظار چاہے جتنا بھی طویل ہو، انہیں کم کھائے اور کم پیئے یہاں ٹکے رہنا تھا اور تب تک واپس نہیں جانا تھا، جب تک وہ اپنا ٹارگٹ حاصل نہیں کرتے۔

انتظار کے چوتھے دن علی الصبح جب انکی ایک ٹیم پانی کا بندوبست کرنے نکل رہی تھی اور باقی اپنی پوزیشینیں سنبھالے بیٹھے ہوئے تھے، تو انہیں آسمان میں ہیلی کاپٹروں کی منڈلانے کی آواز سنائی دینے لگی۔ سب چوکنا ہوکر کیموفلاج ہوکر چھپ گئے، لیکن کیا اسکا مطلب یہ ہے کہ دشمن کو انکی اطلاع مل چکی تھی؟ اگر دشمن فوج کو انکی اطلاع مل گئی ہے تو کیا وہ ایسی کھلے جگہ پر اپنے کیمپ سے دور دشمن سے مقابلہ کرسکتے ہیں؟ مزید دشمن کا انتظار کرنا بہتر ہے یا مشن معطل کرکے واپس جانا؟ شاید دشمن اپنے معمول کے پرواز پر ہو اور انہیں اطلاع نا ہو اگر وہ محض خوف کی وجہ سے واپس ہوتے ہیں تو کتنا بڑا منصوبہ قریب آکر چھوڑنا پڑیگا اور اگر واقعی دشمن کو مخبری ہوگئی ہے اور وہ سرپر آجاتا ہے اور وہ اس کھلی جگہ پر مقابلہ کرتے ہیں، تو انہیں کتنے ساتھیوں کا نقصان ہوسکتا ہے؟ جنگوں میں منصوبے سالوں اور مہینوں تک بنتے رہتے ہیں، لیکن میدان جنگ ایک ایسی جگہ ہے جہاں آپکے تمام ذہنی منصوبے لمحوں میں ہوا ہوجاتے ہیں، ایک منٹ، ایک گولی اور ایک فیصلہ پورے جنگ کا نقشہ بدل سکتا ہے اور فیصلہ کرسکتا ہے کہ کون فاتح نکلے گا اور کس کی لاش نکلے گی اور شیہک کی پوری زندگی آکر اب اس لمحے تک پہنچ چکی تھی جہاں وہ اہم فیصلہ اسے لینا تھا۔ انسان اور کچھ نہیں ہوتا سوائے اپنے کیئے فیصلوں کے۔ آج ہم سب جو ہیں، جو جہاں ہے، سب کا وجود اسکا اپنا کیا ہوا فیصلہ ہے۔ شیہک کو بھی فیصلہ کرنا تھا کہ وہ کون ہے؟

کمانڈر شیہک اپنے دوستوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہے “ساتھیوں! آج ہم سب مختلف جگہوں سے بہت لمبا سفر طے کرکے آئے ہیں، اس طویل سفر کے دوران ہم نے بہت سے مصائب برداشت کیئے۔ اس سفر سے پہلے ہم میں سے ہر کوئی ایک مختلف زندگی جی رہا تھا، لیکن سب کو ایک نظریئے اور ایک فیصلے نے ایک لڑی میں پروکر یہاں اس مقام پر جمع کردیا۔ اور وہ نظریہ صرف یہ ہے کہ ہم غلامی، ذلت اور ظلم برداشت نہیں کرینگے۔ ہم آزادی اور برابر کے انسان ہونے کیلئے جدوجہد کرینگے، چاہے ہمیں اپنی جان قربان کرنا پڑے۔ ہم نے اپنی زندگی اسی دن قربان کردی، جس دن ہم نے غلامی سے انکار کردیا تھا۔ ہم نے اسی دن ہی خوف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے خود پر حاوی ہونے دینے سے انکار کردیا تھا، ہم نے اسی دن ہی آزادی و قربانی سے یاری کرلی تھی، جس دن ہم نے اس راستہ کا چناو کرلیا تھا۔ آج ہم کامیاب ہوکر زندہ واپس ہوں، یا ہمارا خون ہمارے پاک مٹی میں جذب ہو بہرصورت یہ یاد رکھا جائیگا کہ کچھ آزاد انسان یہاں غلامی سے لڑنے آئے تھے۔ ہمارا آج کا دن بھی ہمارا کسی بھی اور دن سے مختلف نہیں۔ ہم یہاں انتظار کریں گے، اگر دشمن سر پر آتی ہے تو ہم آخری دم تک لڑ کر اسکا مقابلہ کرینگے، چاہے ہم سب کو قربان ہونا پڑے، ہم اپنے ٹارگٹ کو حاصل کیئے بغیر واپس نہیں جائینگے۔” شیہک سے سب اتفاق کرکے اسی طرح اپنے پوزیشینوں پر جمے رہتے ہیں۔

کچھ گھنٹوں کے بعد 11 بجکر 55 منٹ پر ایک دوست مخابرے پر اطلاع دیتا ہے، ٹارگٹ پہنچ رہا ہے۔ چند سیکنڈوں میں مزاحمتکاروں کا یہ دستہ فوج کے اس قافلے پر ٹوٹ پڑتا ہے۔ چار دن سے بے خواب، بھوکے اور پیاسے یہ مزاحمتکار بجلی کی پھرتی سے اپنے دشمن پر جھپٹ کر پانچ منٹ کے اندر اسے نیست و نابود کردیتے ہیں اور آدھے گھنٹے تک ایک مرکزی شاہراہ کو بلا خوف و خطر اپنے کنٹرول میں لیئے رکھتے ہیں۔ پندرہ فوجی اہلکار ہلاک کردیتے ہیں اور انکا پورا فوجی سازو سامان اٹھا کر اپنے تھکے کندھوں پر اٹھاکر دوبارہ ان پہاڑوں میں غائب ہوجاتے ہیں جو ہزاروں سالوں سے انکی حفاظت کرتے رہے ہیں۔

تیزی سے واپس ہوتے ہوئے کمانڈر شیہک کا ایک ساتھی خوشی خوشی اس سے مخاطب ہوتا ہے ” واجہ یہ بڑا کام تھا، دل خوش ہوگیا۔” شیہک اسکی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے جواب دیتا ہے ” سنگت! کاش وسائل ہوتے، روز دشمن کو دِکھاتے کہ بلوچ کتنے بڑے کام کرسکتا ہے۔”

چند ہی لمحوں بعد ٹی وی اور سوشل میڈیا پر فوجی ہلاکتوں کی خبریں چلنا شروع ہوجاتی ہیں۔ پاکستانی میڈیا پر دفاعی تجزیہ نگار بولنا شروع کرتے ہیں کہ حملہ آوروں کو بیرونی قوتوں کی معاونت حاصل تھی، جو جدید ہتھیار و وسائل سے لیس تھے، عام بلوچ گلیوں میں چہ میگیوں شروع کرتے ہیں کہ اگر یہ ایسا مار سکتے ہیں تو پھر روزانہ کیوں نہیں مارتے، آزادی پسند دانشور جلدی سے فیس بک اسٹیٹس اپلوڈ کرنا شروع کرتے ہیں کہ عالمی جنگی اصولوں کے مطابق اس حملے میں متعدد نقص تھے۔ جب یہ سب تجزیئے چل رہے ہوتے ہیں حنیف بیہوش ہوکر گرجاتا ہے۔ شیہک جلدی جلدی پانی میں “کیلسی” ملاکر اسے پلاتا ہے۔ دوست پوچھتے ہیں کیا ہوا؟ شیہک بولتا ہے، کچھ نہیں بس بھوک کی وجہ سے اسے چکر آگیا تھا۔

(3)

اس حملے سے سات مہینے پہلے اپریل کے مہینے میں کمانڈر شیہک براس کے علاقائی کونسل کی ایک میٹنگ اس وقت بلاتا ہے، جب تمام تنظیمیں ایک طرف چھوٹی بڑی کاروائیوں میں مصروف ہوتی ہیں، دوسری طرف بے پناہ مشکلات نے بھی سب کو گھیرا ہوتا ہے۔ ایک جانب مظلوم کی حیثیت سے ایک جنگ کا آغاز کرنے کی وجہ سے وسائل کی کمی کا مسئلہ ہمیشہ ہر تنظیم اور ہر مزاحمتکار کے سرپر تلوار کی طرح لٹکا رہتا ہے، دوسری جانب چالاک طاقتور دشمن اور اسکے پیداگیر بھی ہرطرف پھیلے ہوئے ہیں۔ مظلوموں و محکوموں کی جنگیں بھی عجیب ہوتی ہیں، جب وہ ناکام ہوجائیں تو انکا خاتمہ ہوجاتا ہے لیکن جب وہ کامیابی کے ساتھ ایک قدم آگے بڑھائیں تو ہر اگلا قدم پہلے سے کئی گنا زیادہ دشوار گذار ہوجاتا ہے۔ کامیابی اور مشکلات دو متوازی لکیروں کی طرح ہاتھ تھامے چلتے رہتے ہیں۔ آپ جتنا آگے بڑھتے جائیں گے آزمائشیں اتنی ہی کٹھن ہوتی جائینگی۔ ناکام جنگوں سے تو لوگ ویسے بھی ٹوٹ جاتے ہیں، لیکن مظلوموں کے کامیاب جنگوں میں بھی لوگ ٹوٹتے ہیں کیونکہ ہر کامیابی کے ساتھ مشکلات و مصائب کا پیمانہ بھی اتنا بلند ہوتا جاتا ہے کہ ایک عام شخص آسانی کے ساتھ بڑے تصویر سے نظر ہٹا کر کامیاب مسافت کو بھول جاتا ہے اور مصائب سے ٹوٹ جاتا ہے۔ اس لیئے ایسی جنگوں میں جسمانی طاقت سے کئی گنا زیادہ وسیع و پختہ نظری کی ضرورت ہوتی ہے۔

شیہک جن نوجوان قیادت کے ہمراہ بیٹھا ہوا تھا، وہ ویسی ہی ایک نظریاتی وسیع و پختہ نظر جتھہ تھا۔ جسے اب براس کے حالیہ کامیابیوں کے وجہ سے مشکلات نے گھیرا ہوا تھا۔ وہاں فیصلہ ہوتا ہے کہ “ہم دشمن کو اس منصوبے میں کامیاب ہونے نہیں دینگے کے وہ ہمیں منتشر کرکے چھوٹے چھوٹے حملوں تک محدود رکھے، ہمیں ایک بڑا حملہ کرنا ہے، ایک ایسا حملہ کرنا ہے، جس کی گونج دنیا تک پہنچے، ایک ایسا حملہ جس سے قابض میں کھلبلی مچ جائے، پوری دنیا کو پتہ چل جائے کہ دشمن جھوٹ بول رہا ہے، ہم یہیں موجود ہیں اور اپنے وطن کی دفاع کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔

اسکے بعد کمانڈر شیہک اور دوسرے ساتھی بیٹھ کر تخمینہ لگاتے ہیں، اپنا ٹارگٹ چنتے ہیں۔ پھر وہ اس بات پر رک جاتے ہیں کہ اس وقت فوری طور پر اتنی افرادی قوت اور اتنے وسائل انکے پاس موجود نہیں۔ وہ کیسے اتنا بڑا کام کرسکیں گے؟ شیہک اگلے دن براس کے مرکز سے بات کرنے نیٹورک کی طرف نکل جاتا ہے۔

(4)

جب آپ پر کوئی جنگ مسلط ہوئی ہو تو اس سے آپ کبھی بھی نہیں بچ سکتے، آپ اس جنگ کو ٹال سکتے ہیں، لیکن بالآخر آپکو اسکا حصہ بلواستہ یا بلاواستہ بننا ہی پڑتا ہے اور مسلط کی ہوئی جنگ کو آپ جتنا ٹالتے رہوگے، اسکا فائدہ محض دشمن کو ہی ہوتا رہیگا۔ اگر اس مسلط شدہ جنگ کا ہم خاتمہ نہیں کرسکیں تو یہ تسلط ہمارا خاتمہ کردیتا ہے۔ دنیا سے کٹے ہوئے ایک خطے بلوچستان کا ایک آزادی کا مجاہد آدھے گھنٹے تک اپنے مرکزی کونسل کے سامنے ایسے ہی ایک مسلط کردہ جنگ کے خلاف ایک حملے کا منصوبہ پیش کرتا ہے، جس کے تمام پہلووں پر غور کرکے اسے منظور کی جاتی ہے اور اسکے بعد وسائل پر بات شروع ہوجاتی ہے۔ شیہک بولتا ہے “واجہ! میں نے تخمینہ لگایا ہے، ہمیں تقریباً پچاس سے زائد مزاحمت کار ضرورت ہونگے، جو تمام اتحادی تنظیموں کے مختلف کیمپوں سے علاقائی کمانڈر مختصر نوٹس پر جمع کرلیں گے، لیکن ہمیں بہت سے عکسری سامان، راشن اور نقل و حمل کی ضروریات کیلئے 16 لاکھ روپے ضرورت ہونگے۔”

ہمیشہ سے وسائل کے بحران کا شکار یہ تحریک بالآخر کافی مشکلات کے بعد 16 لاکھ روپے کا بندوبست کرکے شیہک تک پہنچا دیتا ہے اور اس آپریشن کا کمانڈ اسے مقرر کیا جاتا ہے۔ جو سات ماہ بعد دشمن کے پندرہ فوجی اہلکاروں کا ایک مرکزی شاہراہ پر قتل پر منتج ہوتا ہے۔

(5)

اگلے چند ماہ کمانڈر شیہک اور اسکے ساتھیوں کیلئے آسان نہیں ہوتے، اتنا بڑا آپریشن دشمن کے عین ناک کے نیچے مکمل رازداری کے ساتھ منطقی انجام تک پہنچانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے لیکن دنیا میں ایسا کچھ بھی نہیں جو پختہ نظریہ اور بلند ارادے سَر نہیں کرسکے۔

تین ماہ کے اندر شیہک پورے مشن کی تیاری مکمل کرلیتا ہے لیکن ایسے وقت میں اس مشن کو پہلا دھچکا اس وقت لگتا ہے، جب اسے پتہ چلتا ہے کہ مشن سے منسلک کچھ مزاحمتکار کمزور پڑگئے ہیں اور انہوں نے دشمن کے سامنے سرینڈر کرلیا ہے۔ لیکن وہ ہمت نہیں ہارتا اور ازسرنو پورے حکمت عملی کو بدل دیتا ہے، اسے چند ماہ مزید لگ جاتے ہیں۔

وہ دن پہنچ جاتا ہے، جب مشن کیلئے نکلنے کا وقت آن پہنچتا ہے۔ براس کا یہ متحرک کمانڈر اپنے ہاتھ میں مشن کا نقشہ لاتے ہوئے اینے تمام جانباز جہدکاروں کو جمع کرکے آواز دیتا ہے کہ “آو سنگتوں! اب مشن پر آخری بار بات کرنے کا وقت آگیا ہے۔ سب تیاری مکمل ہوچکی ہے۔” سارے جمع مزاحمتکاروں میں خوشی کی ایک غیر معمولی لہر پھیل جاتی ہے۔ ہر کوئی ایک دوسرے کو گلے لگانا شروع ہوجاتا ہے۔ خوشی کے اس ماحول میں کمانڈر بہت سے دوستوں کو یہ کہہ کر اداس کردیتا ہے کہ “دوستوں ہم یہاں بہت زیادہ دوست جمع ہوگئے ہیں، اب مشن میں کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ پہلے ہمیں 83 دوستوں کی ضرورت تھی، اب مشن میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں، اسکے تحت اتنی بڑی تعداد میں جانا خود گوریلا اصولوں کی خلاف ورزی ہوگی۔ اسکے علاوہ اب ہمارے پاس اتنے وسائل بھی نہیں سفر کے لیئے۔ اسلیئے مشن کیلئے صرف 45 دوستوں کو چنا جائیگا۔” کمانڈر کی بات سننے کے بعد ایک لمحے تک خاموشی طاری ہوتی ہے، ہر کوئی جانا چاہتا تھا، کسی کو واپس مڑنا گوارا نہیں تھا۔

اپنے ساتھیوں کے چہرے کے تاثرات پڑھ کر ایک بار پھر شیہک دوستوں سے مخاطب ہوتا ہے”ساتھیوں! ہم ذات کی نہیں، نسلوں کی آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں، ساتھیوں! ہم لمحوں کی نہیں عہدوں کی جنگ لڑرہے ہیں، ساتھیوں! ہم مرنے کی نہیں جینے کی جنگ لڑرہے ہیں۔ ہم اختتام نہیں، ہم آغاز ہیں۔ ہم کردار نہیں، ہم میں سے ہر کوئی ایک کہانی ہے اور ان کہانیوں کو بڑھتے رہنا ہے، یہ صرف ایک معرکہ ہے، ایسے کئی معرکیں آپکا انتظار کررہے ہیں، کوئی دوست دلبرداشتہ نا ہو، ہمیں جنگ نے نہیں بلکہ ہم نے اس جنگ کو چنا ہے تو ہر ایک دوست اپنا میدان پاتا رہیگا، کبھی وہ بزی ٹاپ ہوگا، کبھی وہ دشت، کبھی بولان تو کبھی شور اور کبھی بلوچستان کا کوئی اور کوہ و دمن ہوگا۔ ہر دوست خود کو اپنے اپنے معرکے کیلئے تیار رکھے، یہ معرکے اس وقت تک آتے رہیں گے جب تک شہادت نصیب نہیں ہوتی یا پھر فتح ہمارے قدم نہیں چومتی۔”

اسکے بعد کمانڈر نے محاذ کیلئے 45 دوستوں کو الگ کیا، اور ایک پہاڑ کے دامن میں سب کو گول دائرے میں بٹھایا اور زمین پر نقشہ رکھا اور ایک سرخ قلم جیب سے نکال کر، نقشے پر ایک مقام پر نشان لگاتے ہوئے بولا “دوستوں! یہاں سے سفر شروع ہوگا۔ کل شام 5 بجے ہم نکلیں گے اور صبح 5 بجے تک سفر جاری رہیگی اور سب سے پر خطر دشوار گذار سفر یہی ہوگا، اس دوران ٹارچ وغیرہ اپنی جگہ سگریٹ جلانے کی بھی اجازت نہیں ہوگی اور ہر حال میں ہمیں 5 بجے وہاں پہنچ جانا ہے، وہاں پانی کا ایک چشمہ، کچھ درخت ہونگے، وہاں ایک دوست آئیگا، ساتھ کھانا لائیگا، لیکن کل شام 5 بجے کے بعد ہمیں کھانے کے لیے راستے میں کچھ نہیں ملے گا، صرف پانی اور بسکٹ پر گذارہ کرنا ہوگا، وہاں چشمے پر کچھ دوستوں کو جاکر کچھ موٹر سائیکلیں لانا ہوگا، تاکہ کچھ دوست موٹر سائیکل والے راستے سے اپنا سفر شروع کریں، باقی گدھوں کا بندوبست مکمل ہوچکا ہے، کچھ دوست سازوسامان گدھوں پر لاد کر سفر کریں گے۔ اچھا ایک مسئلہ ہے کہ کچھ گدھے بہت کمزور ہیں، اسلیئے انکا بھی راستے میں خاص خیال رکھنا ہے۔”

کمانڈر سرخ قلم سے نقشے پر ان تمام مقامات پر نشان لگاتا جارہا تھا، اور بتارہا تھا کہ کہاں رکنا ہے اور کہاں نہیں اور کس طرح صرف رات کو سفر کرنا ہے، اور کیسے یہ سفر دو ہفتوں تک جاری رہیگی۔ آخر میں کمانڈر نے ایک بڑا سا سرخ گول دائرہ نقشے پر کھینچتے ہوئے دوستوں سے مخاطب ہوا “یہ ہے بزی ٹاپ کا وہ مقام جہاں سے اورماڑہ اتنا ۔۔۔۔۔۔ اور گوادر اتنا ۔۔۔۔۔۔ کلو میٹر دور ہوگا اور ہم یہاں دشمن پر حملہ کرنے کی خاطر گھات لگائینگے۔”

(6)

“واجہ دوست سارے سلامت ہیں، آگ دانستہ طور پر نہیں لگائی، ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ آگ اتنی پھیل جائیگی۔” کمانڈر شیہک براس کے مرکزی کونسل کو رپورٹ دے رہا تھا۔ پورے واپسی کے سفر کے دوران باقی تمام دوست یا تو اس کامیاب حملے کے بارے میں خوشی سے باتیں کرتے اور اسی پر سوچتے یا پھر ہر طرف سفر کے تھکن کے آثار تھے۔ لیکن واپسی کے بعد سے ہی شیہک کے ذہن پر محض دو باتیں گردش کررہی تھیں، جس کی وجہ سے نا اسے سونے کی پرواہ تھی اور نا تھکن محسوس ہورہا تھا۔ پہلی یہ کہ کسی طرح تمام دوست صحیح سلامت محفوظ ٹھکانے تک جلد از جلد پہنچ سکیں اور دوسری جب اسے کہیں سے راستے میں اطلاع ملی کہ دشمن کے جس گاڑی کو انہوں نے آگ لگائی تھی، وہ آگ پیٹرول کی وجہ سے پھیل گئی تھی، جس نے اپنی لپیٹ میں دشمن فوجیوں کی لاشوں کو لیکر جلاکر خاکستر کردیا تھا۔ وہ پریشان تھا کہ اس عمل کو ایک دانستہ عمل نہیں سمجھا جائے۔

اسکی اور اسکے ساتھیوں کی لڑائی انسانیت کیلئے تھی، اسے کسی بھی طرح یہ گوارا نہیں تھا کہ انہیں وحشی سمجھا جائے۔ وہ انسانیت کے محافظ تھے، وہ ایک تہذیب کے رکھوالے تھے، اور وحشی تہذیبیں برباد کرتے ہیں اسکا تحفظ نہیں۔ اسلیئے وہ اس مسئلے پر اتنا حساس ہوگیا تھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ واپسی پر اسے پورے آپریشن کی تفصیلات سینٹرل کمانڈ کو دینی ہونگی، کہیں ایسا نا ہو کہ اس ایک غلطی کی وجہ سے اتنے سارے دوستوں کی شب و روز کی محنت ضائع ہوجائے۔

اس نے مرکزی کمانڈ کو پوری تفصیلات بتائیں، اس سے مختلف سوال پوچھے گئے، تمام پہلووں پر غور ہوا، مرکزی کمانڈ کے پاس پہلے سے تفصیلات تھیں۔ شیہک کے وضاحت کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ یہ ایک نا دانستہ عمل تھا اور اسکی وضاحت قبول کی گئی اور اس مشن کو ایک کامیاب مشن قراردیا گیا۔

طویل گفتگو کے بعد شہیلک نے سیٹلائٹ فون بند کرکے، اسکا انٹینا نکال کر جیب میں ڈال دیا، اور سات ماہ میں پہلی بار اسکے چہرے پر اطمینان کی ایک لہر دوڑ گئی اور وہ مسکراتے ہوئے آھستہ آھستہ مرکزی کیمپ کی جانب چلنے لگا۔ مہینوں بعد آج وہ پیٹ بھر کر کھائے گا اور پوری نیند سوئے گا۔

(7)

راولپنڈی میں آئی ایس پی آر کی نیوز بریفنگ چل رہی تھی کہ انکے پاس ناقابل تردید شواھد ہیں کہ بلوچستان میں بیرون ملک قوتوں کا ہاتھ ہے اور وہ بلوچ مزاحمت کاروں کو بھاری مقدار میں وسائل مہیا کررہے ہیں اور یہ زیادہ تر حملے بیرون ملک ایجنسیاں خود کررہی ہیں۔
کوئٹہ میں سستا تجزیہ نگار کیفے نیو اسٹار ہوٹل پر اپنے چار دوستوں کی جھرمٹ میں دودھ پتی کا دوسرا کپ آرڈر کرتے ہوئے کرونا کے بعد بلوچ تحریک پر تجزیہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ اسکے معلومات کے مطابق اب بلوچ تحریک ختم ہوچکی ہے۔
نامعلوم مقام سے آزادی پسند دانشور فیس بک پر اپنا پہلا اسٹیٹس پوسٹ کرچکا تھا، جس میں پیرس کے مینا بازار میں بلوچستان کا جھنڈا لہرانے کی افادیت بیان کی گئی تھی، اب دوسرے اسٹیٹس پر گوگل پر ریسرچ کررہا تھا کہ براس کے مسلح حملے کس طرح بین الاقوامی اصولوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہیں۔
بلوچستان کے پہاڑوں میں کمانڈر شیہک “گھاٹ” پر اپنی ڈیوٹی پوری کرکے گارے اور پتھر سے بنے چھوٹے سے گھروندے میں داخل ہوچکا تھا، جہاں براس کا علاقائی کونسل دوبارہ جمع تھا۔ وہ پہنچ کر بولا “دوستوں! سب سے پہلے ہمیں اپنے پہلے مشن کے تمام خامیوں پر بات کرنا ہے کہ ہم سے کیا کمیاں رہ گئیں تھیں، اسکے بعد میرے ذہن میں ایک اور بڑے حملے کا منصوبہ ہے، اسکی تیاریاں ابھی سے ہمیں شروع کرنی ہیں۔”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔