کراچی میں لاپتہ افراد آزادی مارچ، گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا

301

سندھ کے درالحکومت کراچی میں لاپتہ افراد آزادی مارچ کا انعقاد کیا گیا۔ گوار قبرستان سے شروع ہونے والے مارچ میں سینکڑوں کی تعداد میں سندھی، بلوچ اور اُردو سپیکنگ سندھی لاپتہ افراد کی لواحقیں نے شرکت کی۔

مارچ کے شرکا نے ہاتھوں میں بنیرز، پلے کارڈ اور اپنے پیاروں کی تصویر اٹھا رکھے تھے اور انکی بازیابی کا مطالبہ کررہے تھے، مارچ کے شرکاء نے گورنر ہاؤس کے سامنے دھرنا دے کر لاپتہ افراد کی عدم بازیابی کے خلاف نعرہ بازی کیا۔

اس مارچ میں آج سے چار سے پہلے لاپتہ بلوچ طلباء تنظیم کے رہنما شبیر بلوچ کی ہمشیرہ سیما بلوچ، انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین کی بھتیجی ماہ زیب بلوچ، لاپتہ ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی مہلب بلوچ، لاپتہ نسیم بلوچ کی منگیتر حانی گل سمیت بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دیگر لواحقین شریک تھے۔

گورنر ہاؤس کے سامنے لاپتہ افراد آزادی مارچ سے پاکستان ہیومین راٹس کمیشن سندھ کے صدر اسد بٹ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ سلسلے سالوں سے جاری ہے، اب اسے بند ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک ایک بھی شہری غیر قانونی طور پر ایجنسیوں کے پاس ہے اس کی بازیابی کے لیے جدوجہد جاری رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے نااہل حکمران ان بچوں کی آنکھوں میں دیکھیں ان میں کوئی دہشت نہیں ملک سے محب وطن کرنے والے لوگ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی ایجنسی کو یہ حق نہیں کہ وہ گھروں میں گھس کر لوگوں کو اٹھے اور لاپتہ کرے، سیکورٹی فورسز گرفتار کرکے ان کو عدالتوں میں پیش کرے، یہ کام عدالت کا ہے کہ کون مجرم ہے۔

لاپتہ افراد آزادی مارچ اور دھرنے میں جئیے سندھ قومی محاذ کے لاپتہ رہنما محفوظ اسماعیل نوتکانی کے والد اسماعیل، سندھی دانشور دلشاد بھٹو، سندھ سجاگ فورم کے سارنگ جویو، وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کے سربراہ سورٹھ لوہار، سندھ سبھا فورم کے انعام عباسی اور دیگر سندھی لاپتہ افراد کی لواحقین نے کہا کہ سندھ میں سیاسی کارکنوں کی غیرقانونی گرفتاری اور بعد ازاں گمشدگی سنگین صورتحال اختیار کررہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ قومی کارکنوں کی جبری گمشدگی ناقابل برداشت عمل ہے، ریاست اپنے اس عمل سے سندھی قومی تحریک کو روک نہیں سکتا۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کی بقاء کےلیے جدوجہد جاری رہے گی۔ آج ریاستی جبر نے مظلوم اقوام کو مشترکہ جدوجہد کی طرف مائل کیا ہے۔ آج سندھی، بلوچ اور اردو بولنے والے یک زبان ہوکر ریاست سے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کررہے ہیں۔

مارچ اور دھرنے میں شریک بلوچستان سے آئے ہوئے ڈاکٹر دین محمد کی بیٹی مہلب بلوچ نے کہا کہ میرے ابو گذشتہ دس سالوں سے ریاستی اداروں کی تحویل میں ہے، ان دس سالوں میں ہمارا پورا خاندان ہر دن اذیت میں گزار رہی ہے، ان دس سالوں میں ہم نے احتجاج کے تمام راستے اپنائے ہوئے ہیں، عدالتوں میں گئے ہیں لیکن ہمارے لیے انصاف ناپید ہے۔

لاپتہ شبیر بلوچ کی بہن سمیا بلوچ اپنے بھائی کی تصویر اٹھائے اس مارچ میں شریک تھی۔ خیال رہے کہ آج شبیر بلوچ کی گمشدکی کو چار سال مکمل ہونے پر کوئٹہ پریس کلب اور کینڈا کے شہر ٹورنٹو میں احتجاج اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئیٹر پر کمپین کا انعقاد کیا گیا تھا۔

دھرنے میں شامل چھوٹی بچی ماہ زیب اپنے لاپتہ چاچا راشد حیسن کی تصویر اٹھا کر ان کی بحفاظت بازیابی کا مطالبہ کررہی تھی۔ ان کے مطابق راشد حیسن کو چھبیس دسمبر دو ہزار اٹھارہ کو متحدہ عرب امارات سے جبراً لاپتہ کرکے بعد ازاں غیر قانونی طور پر پاکستان کے حوالے کیا گیا ہے اور آج تک ہمیں انکی خبر نہیں۔

انہوں نے ریاست سے مطالبہ کیا کہ ان کے چاچا کو بازیاب کرکے عدالتوں میں پیش کیا جائے۔

مظاہرین نے کہا کہ ہم آج اس موقع پر انٹرنیشنل میڈیا کے ذریعے اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، یورپی یونین سمیت تمام عالمی برادری اور دنیا کی ساری انسانی حقوق کی تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ ہماری فریاد سنیں اور سندھ و بلوچستان میں پاکستانی فوجی ایجنسیوں کی جانب سے کیئے جانے والی شدید انسانی حقوق کی پامالی اور جبری گمشدگیوں کا نوٹس لیں اور ہم مظلوم قوموں کی اس ریاستی ظلم و جبر سے آزادی میں مدد کریں۔

احتجاج کے آخر میں وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ کی رہنماء سورٹھ لوہار اور سندھ سجاگی فورم کے رہنماء سارنگ جویو نے میڈیا سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارا آخری مارچ نہیں ہے۔ اگر اس مہینے میں ہماری لاپتا کارکنان کو ظاہر نہیں کیا گیا تو ہمارا آنے والا مارچ اور دھرنہ اب وزیراعلیٰ سندھ کے ہاؤس کے سامنے ہوگا۔ جس کی تاریخ کا ہم بہت جلد اعلان کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ اسی طرح ہمارے ’مسنگ پرسنز آزادی مارچ‘ کا یہ سلسلہ حیدر آباد سے شروع ہوکر اب کراچی، کراچی کے بعد لاڑکانہ، سکھر، نواب شاہ اور میرپور خاص میں بھی جاری رہے گا۔