کراچی: پولیس کا اسٹاک ایکسچینج حملے کے سہولت کاروں اور ماسٹر مائنڈ کے سراغ لگانے میں ناکامی کا اعتراف

370

سندھ پولیس نے منگل کو انسداد دہشت گردی کی عدالت کو آگاہ کیا کہ وہ دو ماہ گزر جانے کے باوجود پاکستان اسٹاک ایکسچینج (پی ایس ایکس) کی عمارت پر حملے کے مجرموں اور ان کے سہولت کاروں تک پہنچنے میں ناکام ہوئے ہیں۔

پولیس کا کہا تھا کہ 30 جون کو پاکستان کے اہم تجارتی اور کاروباری مرکز پر حملہ کرنے والے سہولت کاروں اور مجرموں کی شناخت اور ان کا پتہ لگانے کی کوششیں جاری ہیں جس میں چاروں حملہ آور جھڑپ میں مارے گئے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس حملے میں ایک پولیس سب انسپکٹر اور تین فورسز اہلکار مارے گئے جبکہ تین پولیس اہلکاروں سمیت سات افراد زخمی ہوگئے۔

پولیس کے مطابق تین حملہ آوروں کی شناخت سلمان، تسلیم بلوچ اور سراج احمد کے نام سے ہوئی ہے، لیکن ان کے چوتھے ساتھی کی شناخت ابھی تک نہیں ہوسکی ہے۔

منگل کو اس معاملے کے تفتیشی افسر نے اے ٹی سی کے انتظامی جج کو ایک ’’اے کلاس‘‘ رپورٹ پیش کیا۔ اے کلاس رپورٹس ان معاملات سے متعلق ہوتے ہیں جن میں ملزمان نامعلوم یا ان تک رسائی ممکن نہیں ہوتی ہے۔

رپورٹ میں، انسداد دہشت گردی کے محکمہ کے آئی او انسپکٹر چودھری عارف حسین نے بتایا کہ تفتیش کے دوران حملہ آوروں اور سہولت کاروں کا سراغ لگانے کی کوشش کی گئی تھی تاکہ مسلح حملے کے مرتکب افراد کو تلاش کیا جاسکے۔

انہوں نے بتایا کہ مارے جانیوالے چار حملہ آوروں کی شناخت کے لیے متعلقہ محکموں کو خطوط جاری کیئے گئے تھے، اُن کے خون کے نمونے ڈی این اے ٹیسٹ کے لئے بھیجے گئے اور حملے میں استعمال ہونے والی اسلحہ بیلسٹک معائنے کے لئے بھیجا گیا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ حملہ آوروں کے سوشل میڈیا، انسٹاگرام اور دوسرے اکاؤنٹس چیک کرنے کے لئے حمہ آوروں کے استعمال شدہ موبائل فون وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کو بھی بھیجے گئے تھے۔

رپورٹ میں آئی او نے تسلیم کیا کہ اب بھی زیادہ تر رپورٹس کا انتظار ہے۔

تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا کہ حالات اور دیگر شواہد کی روشنی میں مارے جانیوالے حملہ آوروں کے خلاف جرم مکمل طور پر ثابت ہوچکا ہے، لیکن چونکہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مقابلے میں مارے گئے تھے، لہذا ان کے خلاف مقدمہ نہیں چل سکتا ہے۔ آئی او نے بتایا کہ تفتیش کا مقررہ وقت ختم ہوگیا ہے لہذا فوجداری ضابطہ اخلاق کی دفعہ 173 کے تحت تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں دائر کی جارہی ہے۔

آئی او نے انتظامی جج سے اے کلاس رپورٹ کو قبول کرنے کی درخواست کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر مستقبل میں انہیں گرفتار کیا گیا تو، حملے کے نامعلوم سہولت کاروں اور متعلقہ افراد کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

جج نے اے کلاس رپورٹ کو قبول کیا اور معاملے کو نمٹانے کے لئے اے ٹی سی – XVI کو منتقل کردیا۔

واضح رہے کہ 29 جون کی صبح چار مسلح افراد نے کراچی اسٹاک ایکسچینج کو نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری بلوچ مسلح آزادی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔

تنظیم کے ترجمان جیئںد بلوچ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ حملہ بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ کے فدائین نے کیا جن میں آپریشن کمانڈر شہید فدائی سنگت سلمان حمل عرف نوتک سکنہ مند تربت، شہید فدائی سنگت تسلیم بلوچ عرف مسلم سکنہ دشت تربت، شہید فدائی سنگت شہزاد بلوچ عرف کوبرا سکنہ پروم پنجگور اور شہید فدائی سنگت سراج کنگر عرف یاگی سکنہ شاپک تربت شامل تھے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ بلوچ وسائل کی لوٹ مار میں نا صرف قابض ملک پاکستان شامل ہے، بلکہ چین بھی اس میں براہ راست شریک ہے۔ چینی لوٹ مار کو روکنے کیلئے اس سے پہلے مجید بریگیڈ دالبندین میں چینی انجنیئروں، کراچی چینی قونصل خانے اور پی سی ہوٹل گوادر میں چینی وفود پر فدائی حملے کرچکا ہے۔ اسکے باوجود چین بلوچستان میں اپنے استحصالی منصوبے جاری رکھے ہوئے ہے۔

جیئںد بلوچ نے بیان میں کہا تھا کہ بی ایل اے یہ واضح کرنا چاہتی ہے کہ بلوچستان کی مکمل آزادی تک قابض پاکستانی فوج، اسکے عسکری و استحصالی معاشی مفادات اور بلوچستان پر پاکستانی قبضے و استحصال کو استحکام و طوالت بخشنے والے چین جیسے قوتوں پر ہمارے حملے جاری رہیں گے۔