سکالرشپس کا خاتمہ دہائیوں سے جاری استحصال کا تسلسل ہے – بی ایس او

154

 بلوچستان کے طلباء کو پنجاب کے مختلف اداروں میں سکالرشپس دی گئی تھیں، جس سے کثیر تعداد میں طلبا مستفید ہوتے رہے ہیں اور بلوچستان کے دگرگوں حالات میں غریب طلباء کے لیے کسی غنیمت سے کم نہ تھی لیکن پچھلے دنوں انتظامیہ نے سکالرشپس ختم کرنے کا اعلان کردیا اور یوں غریب صوبے کے طلبا کو مزید تاریکیوں میں دھکیلنے کا عمل شروع ہوا۔

ان خیالات کا اظہار بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے سیکرٹری جنرل چنگیز بلوچ، سینئر جوائنٹ سیکرٹری جیئند بلوچ اور دیگر نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے میں ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے طلباء کو میسر سکالرشپس کا خاتمہ کرنا بلوچستان کے ساتھ دہائیوں سے جاری استحصال کا تسلسل ہے۔ جہاں کچھ مقتدرہ قوتیں نہیں چاہتی کہ بلوچ نوجوان تعلیم تک رسائی حاصل کرسکے۔

بی ایس او رہنماوں کا کہنا تھا کہ بلوچستان جو اس وقت خطے میں سب سے کم خواندگی کی شرح رکھنے والا علاقہ ہے اور اس پر بلوچستان کے اندر تعلیمی انفراسٹرکچر بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسی صورتحال میں صوبے سے باہر ریلیف کے طور پر کچھ سکالرشپس دی گئیں جو کئی مجبور طلبا کیلئے واحد امید کی کرن تھی، لیکن وہ بھی حلقہ اقتدار کو قبول نہیں۔ اور اب وہ ان چند سکالرشپس، جس پر بلوچستان کا غریب طالب علم پڑھ لیتا ہے، چھیننے کے در پے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان جسے دہائیوں سے شعوری طور پر پیچھے رکھا گیا ہے اور ہرممکن حد تک ترقی کی راہ روکی گئی ہے، وہاں تعلیم جیسے بنیادی حق پر اس طرح ضرب لگانا، بلوچستان بھر کے طلباء کے مستقبل پر شب خون مارنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ وطن کو جہاں معاشی طور پر جمود کا شکار بنائے رکھا گیا اور کوئی جدید ذرائع روزگار یہاں کی عوام کو نہیں دیئے گئے، ایسے میں غربت کی نچلی ترین سطح پر زندگی بسر کرنے والے عوام سے آپ کیا توقعات رکھتے ہیں؟ اس معاشی و تعلیمی برباد حالی کے باوجود، ہمیں مزید سکالرشپس دینے یا غربت زدہ حصے کو نئے مواقع فراہم کرنے کی بجائے، بر سر اقتدار طبقات ہمیں پہلے جو تھوڑا ریلیف میسر تھا وہ بھی چھیننے کے در پے ہیں۔ یہ نا صرف ہمارے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو تازہ کرنا ہے بلکہ ہمارے مستقبل کے ساتھ بھی کھلواڑ کے برابر ہے جسے ہم کسی صورت قبول نہیں کرسکتے۔

طلباء رہنماوں کا مزید کہنا تھا کہ بلوچ طلباء کا احتجاجی دھرنا بہاؤلدین ذکریہ یونیورسٹی کے سامنے پچھلے کئی دنوں سے جاری ہے اور تعلیم جیسے بنیادی حق کی خاطر ملتان کی گرمی میں دن رات ذلیل و خوار ہونے پر مجبور ہیں۔ آخر کیوں کر ظلم کی کسی بھی شکل کا پہلا نشانہ بلوچ طلباء ہوتے ہیں۔ بی زیڈ یو اور بہاولپور یونیورسٹی میں بلوچستان کے مخصوص کوٹے پر اس خطے کا غریب ترین نوجوان پڑھنے آتا ہے اور آج وہاں بھی تعلیم کے دروازے ان پر بند کیئے جارہے ہیں جو نہ صرف خواندگی کے حوالے سے بلکہ معاشی و سماجی لحاظ سے بھی خطے کو پیچھے کی جانب دھکیل دے گا۔

انہوں نے کہا کہ احتجاج پر بیٹھے طلباء کے ساتھ یونیورسٹی انتظامیہ کے مذاکرات اور کمیٹی بنانا خوش آئند ہے لیکن اگر یہ بھی ماضی کی طرح صرف وقت گزاری اور مسئلے کو دبانے کا ہتھکنڈا ہوا تو بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سادہ اور صاف الفاظ میں یہ بتا دینا چاہتی ہے کہ ہمارے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ یوں ہی جاری رہا اور ہماری سکالرشپس میں کمی کی کوششیں ہوتی رہی تو ہم احتجاج کا حق اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں اور ملک گیر سطح پر بلوچ طلباء کے حقوق کی خاطر نکلیں گے۔

انہوں ن کہا کہ طلباء کا وقت ضائع کرنے کی بجائے اور انہیں کلاس رومز کی بجائے روڈ پر دھکیلنے سے بہتر ہے کہ حکمران بلوچ طلبا کی فریاد سنیں اور ان کے احتجاج پر مسئلے کی نوعیت سمجھتے ہوئے تعلیم دوست پالیسی مرتب کرے جو دیرپا، جامع اور غریب نواز ہو۔

رہنماوں نے کہا کہ ہم ملک کے تمام اعلیٰ حکام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جلد سے بیشتر بلوچ طلباء کی گزارشات کو سنیں اور ان کی مشکلات کا مداوا کریں۔ ہم  وزیراعظم عمران خان، وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال  سے گزارش کرتے ہیں کہ بلوچستان کی بدحالی و پسماندگی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے اختیارات کو بروئے کار لا کر نہ صرف پرانی سکالرشپس اور تعلیمی پیکجز کو بحال کریں بلکہ ان میں مذید اضافہ کرکے تعلیم دوست و ترقی پسند ہونے کا ثبوت دیں۔