حسبیہ قمبرانی کی درد بھری کہانی – چاکر بلوچ

399

حسبیہ قمبرانی کی درد بھری کہانی

تحریر: چاکر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

کتنا درد، کتنی اذیتیں، کس قدر انتظار ان آنکھوں میں قید ہے، ایک بہن اپنے لاپتہ بھائیوں کی راہ تکتے تکتے جب اپنے لرزتے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے، کپکپاتے ہونٹوں سے اس ظلم و بربریت کیخلاف دعاگو ہوگی تو یقیناً عرش بھی ہل جائیگا۔

حسیبہ قمبرانی کی لہو میں ڈوبی کرب سے گزری آواز اور ان کے گرتے آنسو ایک تاریخ بنا رہی ہیں ایک ایسی تاریخ جو قوت سے مسخ نہیں ہوسکتا۔

حسیبہ قمبرانی کی تصاویر کچھ ماہ پہلے سوشل میڈیا کے توسط سے سامنے آتے رہے، ایک معصوم اور لاچار بہن اپنے بھائیوں کے بازیابی کیلئے کوئٹہ کی یخ بستہ سردی میں پریس کلب کے سامنے دو نوجوان حسان قمبرانی اور حزب اللہ قمبرانی کی تصاویر کو سینے پہ لگائے روتے بلکتے ہوئے دیکھائی دی۔

حسیبہ قمبرانی کون ہے؟ اس کے بھائیوں کا کب کیسے اور کس نے کہا سے لاپتہ کیا؟ یہ سوالات میرے ذہن میں جنم لیتے گئے اور مسلسل سوشل میڈیا پر حسیبہ قمبرانی کے بارے میں معلومات اکھٹے کرنا شروع کردیا۔

حسیبہ قمبرانی جس کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوگئی، جہاں وہ بہتے آنسوؤں کے ساتھ اپنے بھائی محمد حسان قمبرانی و کزن حزب اللہ قمبرانی کے بازیابی کیلئے فریاد کرتی ہے، محمد حسان اور حزب اللہ کو 14 فروری 2020 کو خفیہ اداروں کے اہلکار اغواء کرکے اپنے ساتھ لے گئے جو تاحال لاپتہ ہیں۔

اس سے پہلے بھی حسیبہ کے بھائی سلمان قمبرانی اور کزن گزین قمبرانی کو 2015 میں خفیہ اداروں کے اہلکار اپنے ساتھ لے گئے تھے پھر 2016 کو گزین اور سلمان کی مسخ شدہ لاشیں پھینک دی گئیں، حسیبہ اپنے ان بھائیوں کی طرح حسان و حزب اللہ کو کھونا نہیں چاہتی، جس کیلئے وہ سراپا احتجاج ہے، رو رہی ہے، فریاد کر رہی ہے، انصاف مانگ رہی ہے۔

یہ آنسو اس بے پناہ درد کی ترجمانی کر رہے ہیں، اپنے ایک نوجوان بھائی کی مسخ شدہ لاش کو پہلے ہی دیکھ کر دوسرے لاپتہ بھائی کے لیے کیا خیالات و تصورات ہونگے یہ ناقابل بیان ہیں۔

“اس کے آنسو کون پونچھے گا
اس کی ماں اور بہن کے دکھ کا مداوا کون کرے گا”

یہاں سوال یہ جنم لیتا ہے کہ آخر کب تک ہمارے نوجوان ماورائے عدالت قتل ہوتے رہیں گے، اور کب تک لاپتہ کئے جائیں گے آخر کب تک ہمارے بہنیں گودی حسیبہ قمبرانی ، فرزانہ، سیمی ،ماہرنگ، اور مہلب سڑکوں پر انصاف کے منتظر رہیں گے، کب تک اس خونی لکیر کو مزید کھینچا جائے گا؟

نہ جانے ظالم اور بے رحم ریاست کو حسیبہ کی درد کا احساس کب ہوگا اور کب حسیبہ کی راہ تکھتی نگاہوں کو سکون ملے گا، نہ جانے کب حسیبہ کی انتظار کی گھڑیاں ختم ہوگی ، نہ جانے وہ سورج کب طلوع ہوگا جب حسیبہ کی چہرے پہ آنسوؤں کے بجائے مسکراہٹ دیکھنے کو ملے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔