جائیں تو جائیں کہاں ؟ – نگرہ بلوچ

230

جائیں تو جائیں کہاں ؟

تحریر: نگرہ بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب میں بہت زیادہ اداس ہوتی ہوں تو اپنے سارے دکھ درد ،غم ان کاغذوں کے حوالے کردیتی ہوں جن کے پاس کہنے کو تو زبان نہیں ہوتی لیکن انکے پاس سننے،سمجھنے اور احساسات اور جذبات کی قدر انسانوں سے کئی زیادہ ہے۔

دیکھنے میں تو کاغذ کا ٹکڑا نازک اور ناتواں ہوتا ہے جسے ہوا کا ایک معمولی جھونکا ادھر سے ادھرُ پھدکنے پہ مجبور کردیتی ہے۔آگ کی تپش سیکنڈوں میں راکھ بننے پہ مجبور کردیتی ہے۔اتنی کمزور کہ کبھی کبھی خود بخود میز سے سرک کر پاؤں کے نیچے آجاتی ہے اور کوڑے کرکٹ کی زینت بن جاتی ہے اور کبھی دوبارہ اٹھنے کی سکت بھی اس میں نہیں رہتی۔
مگر کبھی کبھی کاغذ کا یہ کمزور ٹکڑا زمین کو آسمان سے ملا دیتی ہے۔کاغذ کا معمولی ٹکڑا جب طاقت حاصل کرتی ہے تو سرحدوں کو پھلانگ کر حکمرانوں کے تخت کو تہس نہس کرکے بھوک و افلاس زدہ جمہور کو تخت کا بادشاہ بنا دیتی ہے۔کاغذ کا ایک ٹکڑا جس میں عوام کی جدوجہد اور قربانیوں کا ذکر ہوتا ہے تو یہی ایک ٹکڑا انقلاب برپا کرکے سوئے ہوئے عوام کو جگا دیتی ہے۔بھٹکے ہوئے عوام کو سیدھا اور انقلاب کا راستہ دکھاتی ہے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک شام میں اپنے غریب خانے کے سامنے چنال کے درخت کے نیچے بیٹھی آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی تو مجھے محسوس ہوا کہ آسمان پہ چھائے ہوئے بادل رو رہے ہیں انکی آنکھوں میں دکھ اور غم کے آنسو خون بن کر ٹپک رہے تھے۔دکھ اور قرب سے بادلوں کی آنکھیں لال تھی جب میں نے ان لال لال آنکھوں کو دیکھا تو میں نے سوچا کہ آج ان بادلوں کا گزر میری سرزمین سے ہوا ہے ۔

ان بادلوں نے ویران شہروں میں آباد قبرستانوں کو دیکھا ہوگا۔پریس کلبوں کے سامنے ماؤں اور بچیوں کی بلکتی ہوئی سسکیاں دیکھ کر وہ آپے سے باہر ہوئی ہوگی۔زندانوں کی سیر کی ہوگی جہاں بلوچ فرزندوں پہ ظلم و ستم کے منظر اسکی نظروں سے گزرے ہونگے۔ماؤں کی بے بسی،جلتے ہوئے گھر،توتک کے اجتماعی قبروں کی بازگشت نے اور ان بے کس و مجبور جمہور کی آہ و زار نے بادلوں کو بھی رونے پہ مجبور کیا ہوگا۔

کیا بتاؤں کیا کیا نہ سوچا میں نے اسی سوچ اور خیال میں گم ہو کر میں نے ایک ننھے منے پرندے کو پھڑپھڑاتے دیکھا۔غور سے میں اس معصوم پرندے کو دیکھنے لگی تو ہوا کے ایک تیز جھونکے نے ساتھ میں پڑی ہوئی کتاب میرا داغستان کے صفحوں کو رقص کرنے پہ مجبور کردیا۔اسی اثنا پرندوں کا ایک بڑا قافلہ آسمان کی طرف سر کئے محو سفر تھے۔وہ آسمان پہ چھائے ہوئے بادلوں کو چونچ مار کر پوچھ رہے تھے کہ اس زمین و آسمان کے مالک سے پوچھ لو کہ کیوں دشت اور تمپ میں ہمارے مسکن جلائے گئے یہ نہ صرف ہماری پناہ گاہ تھے بلکہ اس دیہات میں بسنے والے ہزاروں مجبور انسانوں کے روزگار کا وسیلہ تھے۔اور انکے جلانے والے اسلام کے رکھوالے اور تیرے مذہب کے خدمت گار سپاہیوں نے نعرہ تکبیر کی گونج میں جلا ڈالے اب ہم جائیں تو کہاں جائیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔