انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار – ٹی بی پی اداریہ

227

انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار

ٹی بی پی اداریہ

تربت بلوچستان کا دوسرا بڑا شہر ہے، تربت اپنے نام کے نسبت سے ایک تربت (قبر) میں بدلا جارہا ہے۔ گوکہ اس عہد سعادت کے ابتداء سے ہی اس شہر میں خونریزی کا بازار گرم ہوچکا تھا، لیکن بلوچ خواتین کی قتل کے چند حالیہ واقعات ایک خطرناک رجحان کی طرف اشارہ کررہی ہیں۔

رواں سال 26 مئی کو ایک بلوچ خواتون ملکناز کو تربت شہر کے نواح میں ڈنک کے مقام پر ڈکیتی کے ایک واقعے کے دوران قتل کردیا گیا۔ قاتل کو ہمسائیوں نے گرفتار کرلیا۔ جسکی شناخت سمیر سبزل ڈیتھ کے ایک کارندے کے طور پر ہوئی۔ ڈیتھ اسکواڈ بلوچستان میں متحرک وہ مسلح دستے ہیں، جنہیں مبینہ طور پر پاکستانی آرمی نے مسلح کیا ہوا ہے، جو بلوچ مزاحمتکاروں کیخلاف کاروائیاں کرتے ہیں، جسکے بدلے میں انہیں مکمل آزادی دی گئی ہے۔ اس قتل کے خلاف بلوچستان بھر میں احتجاج ہوئے۔ اسکے بعد ان ڈاکو کم قاتلوں کے ساتھ کیا ہوا؟ انکے خلاف مقدمات کہاں تک پہنچے؟ کسی کو کچھ پتہ نہیں، لوگوں کو صرف اتنا معلوم ہے کہ قاتلوں کو ابھی تک سزا نہیں ہوئی ہے۔

مذکورہ واقعے کے محض ایک ماہ بعد تربت سے ملحقہ علاقے دازن میں اسی طرح کے ایک اور ڈاکو کم قاتل گروہ نے ڈکیتی کے اسی طرح کے واقعے میں، ایک بلوچ خاتون کلثوم کو انکے بچوں کے سامنے گلا کاٹ کر قتل کردیا۔ اس بار قاتل فرار ہونے میں کامیاب ہوئے لیکن سب نے قاتلوں کی شناخت کی اور انگلیاں ایک بار پھر قائم کردہ ڈیتھ اسکواڈوں پر اٹھیں۔ بہت سے بلوچ سیاسی کارکنان نے اس طرح کے واقعات کو بلوچ مزاحمت کاروں کیلئے ریاست کی جانب سے ایک دھمکی قرار دیا کہ انکے اہلخانہ محفوظ نہیں ہیں۔

14 اگست کو پاکستانی فوج نے تربت کے علاقے آپسر میں ایک 25 سالہ نوجوان حیات بلوچ کو اسکے والدین کے سامنے گولیاں مار کر قتل کردیا۔ بہت احتجاج و واویلوں کے بعد ایک فوجی اہلکار کو گرفتار کرنے اور حوالات میں بند رکھنے کی خبر دی گئی۔ ملکناز کے قتل کے مقدمے کی طرح، اس مقدمے کو بھی مختلف حیلوں اور بہانوں سے طول دیکر تاخیر کا شکار کیا جارہا ہے۔ ڈان نیوز کے صحافی مبشر زیدی کے مطابق مذکورہ فوجی اہلکار کرونا وائرس سے متاثر ہوچکا ہے، اسلیئے اسے قید تنہائی میں رکھا گیا ہے، اور اسکے خلاف اب مقدمہ تب ہی دوبارہ شروع ہوسکتا ہے، جب وہ مکمل صحت یاب ہوجائے اور اسکا کرونا کا ٹیسٹ منفی نکلے۔

طاقتور لوگوں کے دست شفقت سے فیضیاب ہونے والوں کا حالیہ شکار بلوچ خاتون شاہینہ شاہین ہے۔ شاہینہ تربت سے تعلق رکھنے والی ایک صحافی، اینکر پرسن، مصور اور سماجی کارکن تھیں۔ انہیں 5 ستمبر کو انکے شوہر محراب گچکی نے قتل کردیا تھا، لیکن قاتل ابتک فرار ہے۔ مقتول صحافی شاہینہ کی بہن زارا شاہین نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر الزام عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ “محراب گچکی، پاکستانی فوج کیلئے کام کرنے والے ڈیتھ اسکواڈ کا حصہ ہے۔ اسلیئے غالب امکان ہے اسے ڈیتھ اسکواڈ کے کسی اڈے میں پناہ دیا گیا ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ پولیس اپنے بے بسی کا اظہار کرچکی ہے کہ وہ “طاقتور” لوگوں کے گھر گرفتاری کیلئے چھاپہ نہیں مار سکتے۔

شاہینہ شاہین کی اہلخانہ اور سول سوسائٹی کے ارکان نے 17 ستمبر کو تربت شہر میں ایک احتجاجی ریلی نکالنے کی کوشش کی، تاہم، زارا شاہین کی طرف سے ٹوئٹر پر اپلوڈ کیئے گئے ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ پولیس کا ویڈیو بنارہی ہے اور الزام لگارہی ہے کہ خفیہ اداروں کی ایماء پر پولیس انکے احتجاجی ریلی کو روکنے کی کوشش کررہی ہے۔

باوجود اسکے کہ شاہینہ کی قتل کی تحقیقات اور قاتل کی گرفتاری کیلئے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی ہائی کمشنر، پاکستان کے 58 خاتون صحافیوں نے ایک دستخط شدہ خط کی صورت میں اور تین سپورٹنگ باڈیز نے اپیل کی ہے لیکن قاتل پھر بھی فرار ہے اور شاہینہ کے اہلخانہ کے مطابق پولیس کو قاتل کی گرفتاری میں کوئی دلچسپی بھی نہیں ہے۔

تربت میں قتل کے حالیہ واقعات کے پیچھے یا تو براہ راست ریاستی افواج ملوث رہے ہیں یا پھر وہ گروہ جنہیں مبینہ طور پر فوج کی پشت پناہی حاصہ ہے۔ کوئی بھی شخص جسے بلوچستان کے معروضی حالات سے تھوڑی بہت آگاہی ہے، وہ بخوبی اندازہ لگاسکتا ہے کہ ایسے مقدموں میں انصاف کی امید دیوانے کا خواب ہے۔