جب مائیں یتیم ہوجائیں! – محمد خان داؤد

234

جب مائیں یتیم ہوجائیں!

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

جب مائیں یتیم ہو جاتی ہیں، تو دعاؤں کا سفر رُک جاتا ہے۔ دعاؤں کے پر کٹ جاتے ہیں۔ دعائیں آسمانوں پر چڑھ نہیں سکتی۔ زبانیں سب الفاظ بھول جاتی ہیں۔ انسان گونگے بن جاتے ہیں۔ دریاؤں کا بہاؤ ختم ہوجاتا ہے۔ پتھر نرم پڑ جاتے ہیں، پہاڑ اپنی جگہوں سے کھسک جاتے ہیں۔ ہوائیں منہ زور ہو جاتی ہیں۔ نیلا آسماں سیاہ ہو جاتا ہے۔ مٹیالی زمیں کالی پڑ جاتی ہے۔ آسماں سے گرتی برف کا رنگ خون آلود ہو جاتا ہے۔ برسنے والی بارش، بارش نہیں ہوتی، وہ عظیم آنسو بن جاتے ہیں، جو قدرت ماؤں کے یتیم ہونے پر بہاتی ہے۔ کھیتوں میں مکئی کو سنگ نہیں لگتے۔ باغو ں میں پھول جلد مر جھاجاتے ہیں۔ اگر کوئی پھول باقی بچ بھی جاتا ہے تو اس میں خوشبو کا کوئی بسیرا نہیں ہوتا۔ مہندی کا رنگ اڑ جاتا ہے۔ پہلی بار ماں بننے والی مہیلا سے لیکر کئی کئی بچوں کی ماؤں کے تھنوں سے دودھ نکلنا رُک جاتا ہے۔ جوان لڑکیوں کی مانگ سونی ہو جاتی ہے۔ وہ کئی تیل پھلیل نہیں کرتیں۔ وہ کسی کا دل نہیں جیتتیں۔

وہ ہاری ہوئی جوانی ہوتی ہیں۔ نوجوان لڑکوں میں وہ چاہت ہی نہیں رہتی کہ وہ آگے بڑھیں اور کسی کو اپنی بانہوں میں بھر لیں
سب کچھ رُک جاتا ہے!
سب کچھ تھم جاتا ہے!
جب مائیں یتیم ہوتی ہیں!

بچوں کے یتیم ہونے پر دنیا یوں ہی چلتی رہتی ہے۔ پر ماؤں کے یتیم ہونے پر دنیا نہیں چلتی، دنیا کے دامن کو آگ لگ جاتی ہے اور دنیا جلنے لگتی ہے۔

بس دنیا ہی کیا دنیا کی مہک کو، دنیا کی خوشبو کو، دنیا کے رنگوں کو آگ لگ جاتی ہے اور سب چیزیں جلنے لگتی ہیں۔ مائیں ماتم کا روپ بن جاتی ہیں۔ جب مائیں مرتی ہیں تو بچے تعذیت وصول کرتے ہیں
پر جب بچے مر جائیں تو ماؤں سے تعذیت کون وصول کرے؟
قدرت اپنا منہ چھپانے لگتی ہے۔ بارش ماؤں کے ماتم کے آنسو بن کر برستی ہے اور دھرتی وہ وشال دامن بن جاتا ہے جس دامن میں لوگ بیٹھ کر ان یتیم ہونے والی ماؤں سے پروس کرتے ہیں۔ سب کچھ تھم سا جاتا ہے۔سب کچھ رُک سا جاتا ہے۔ دنیا دیوانی ہو جا تی ہے۔ اگر دنیا دیوانی نہیں بھی ہوتی تو وہ مائیں تو ضرور دیوانی ہوجایا کرتی ہیں، جن کے جوان بیٹے بھونکتی بندوقوں کی نظر ہو جائیں اور مائیں اپنا دوپٹہ بھول کر اس خدا کو بُلائیں

جو خدا نہ مریم کے بُلانے پر آیا تھا اور نہ حیات کی ماں کے بُلانے پر!
خدا مصروف رہا اور مائیں یتیم ہو گئیں
وہ معصوم مائیں ایسے خدا کا کیا کریں گیں، جو خدا آسماں سے اترتا نہیں
ماؤں کے درد دیکھتا نہیں
ماؤں کے آنسو پونچھتا نہیں
اور ماؤں کے زخمی دلوں کی رفوگیری نہیں کرتا
خوابوں سے لیکر جناح تک
اور جناح سے لیکر شہد تک
ان ماؤں کا کچھ نہیں
مائیں تو مقتل گاہ میں اس بات کی منتظر ہیں کہ ان کے بیٹوں کو کب فائرنگ اسکواڈ کے سامنے لایا جاتا ہے؟
کب ان کے سینوں میں گولیاں اتاری جاتی ہیں؟
کب وہ بے جان ہوکر سڑک پر گرتے ہیں؟
کب مائیں ان کے گھائل وجودوں کو اپنے کانپتے بوڑھے ہاتھوں میں تھامتی ہیں؟
کب وہ اس خدا کو بُلاتی ہیں جو ہوکر بھی نہیں
اور نہیں ہوکر بھی ہے!

وہ مائیں کب اس خدا کو بُلاتی ہیں جو نہ یسوع کو مصلوب ہونے سے بچا سکا
اور نہ حیات کو فائرنگ اسکواڈ سے
اس دھرتی کے خدا تو اور ہیں
اس دھرتی کا وہ خدا ہی نہیں
جو مسجد،مندر،ٹیمپل، چرچ اور دیوارِ گریہ میں ہے
وہ خدا کوئی اور ہے اور یہ مائیں اس خدا کو پکارتی ہیں جو خود کہیں نہیں
یہ مائیں ان خداؤں سے واقف ہی نہیں جو میٹنگ کرتے ہیں، جو میٹنگز کے منٹس بناتے ہیں
جو ودری پہنتے ہیں جو اپنے گھروں میں نوکر، بندوق اور کتے رکھتے ہیں
یہ معصوم مائیں تو اس خدا کو پکارتی ہیں جس خدا کو زمیں کے خداؤں نے کب کا جلا وطن کیا ہوا ہے
اور وہ جلا وطن خدا کہاں ہے؟ کس حال میں ہے؟ کوئی نہیں جانتا!

جب مائیں یتیم ہو جائیں تو سارے رنگ اور جوانی کے رنگ بھی پھیکے پڑ جاتے ہیں
جوان جسموں سے پسینے کی خوشبو نہیں پھوٹتی
اور محبت ماری جا تی ہے
وہ ماں جو حیات کی ماں ہے، جس کے دامن میں حیات خون آلود پڑا ہوا ہے
اس ماں کی محبت ماری گئی ہے
اس ماں کی نیند ماری گئی ہے
اس ماں کی سانسیں ماری گئی ہیں
اس ماں کے الفاظ مارے گئے ہیں
اس ماں کی سماعت ماری گئی ہے
اس ماں کا چین مارا گیا ہے
اس ماں کا جیون مارا گیا ہے
اس چیختی دوڑتی، رو تی مورنی کا مور مارا گیا ہے
اور وہ ماتم کر رہی ہے
ایسا ماتم
جس ماتم کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
،،ویو وسکا رے میں مور مری
تھی کیڈیون دانھون ڈیل کرے!،،
برستی بارش میں مور مر گیا
دیکھو کیسے آکاش کو رُلانے والی چیخیں کر رہی ہے مورنی!،،
ہاں حیات مور تھا
اور حیات کی ماتم کرتی ماں بلوچستان کی مورنی
رو تی مورنی
اکیلی مورنی
اور اب ماتم بن جانے والی مورنی

جب مورنیاں یتیم ہو جائیں اور ان کے مور ناحق مارے جائیں تو بارشیں آنسو بن جا تے ہیں۔
اور اس وقت بلوچستان اور سندھ میں برستی بارش حیات کے لیے آنسو بن کر برس رہے ہیں!
جب مور مارے جائیں توجوان مہیلاؤں کا کوئی بوسہ نہیں لیتا اور وہ گال بوسہ نہ لینے کی وجہ سے جل رہے ہو تے ہیں۔ حسن کو گرہن لگ جاتی ہے۔ چاند بادلوں میں چھپ جاتا ہے اور سورج اندھا ہوجاتا ہے، اور ہوائیں وہ خبریں نہیں لا تیں جو خبریں،،پرین ء جی پار!،، کی ہو تی ہیں

ہم نے آج تک بچوں کو یتیم ہوتے دیکھا ہے
آج ہم یہ بھی دیکھ لیں کہ مائیں کیسے یتیم ہوتی ہیں
اور ماؤں کے دلوں پہ کیا گذرتی ہے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔