بڑا ہے درد کا رشتہ – محمد خان داؤد

191

بڑا ہے درد کا رشتہ

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

ایک یونانی کہاوت ہے
,, Trouble loves classmates,,
،،تکلیف ہمجولیوں سے محبت کرتی ہے!،،
اور یہی بات لطیف نے اس پیرائے میں کہی تھی کہ
،،اچو!سورن واریوں کریون
سور پچار!،،

اگر ایسا نہیں ہے تو کوئٹہ پریس کلب کے باہر بیٹھے مسنگ پرسن احتجاج والے کراچی پریس کلب پہ بیٹھے افراد کے لیے فکر مند کیوں ہیں؟ لاہور پریس کلب کے باہر مظاہرہ کرنے والے اسلام آباد کی شہراؤں پہ کئی سالوں سے احتجاج کرنے والی آمنہ مسعود جنجوعہ کے لیے فکر مند کیوں ہیں؟ وزیرستان، ٹانک، قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ، لاڑکانہ، سکھر، حیدر آباد جو جہاں بھی حق سچ کی بات کے لیے مظاہرہ کرتا ہے وہ کسی اور کے لیے کیوں پریشان رہتا ہے؟
اس لیے کہ
،،تکلیف ہمجولیوں سے محبت کرتی ہے!،،
اور اس لیے بھی کہ
،،اچو!سورن واریوں کریون
سور پچار!،،

ایسا ہی ایک تکلیفوں کا مارا، جسے اب ہمجولیوں سے محبت ہو گئی ہے۔ ہمجولی بھی وہ جو اس کی طرح اس ہی درد سے گذر رہے ہیں جس درد سے ایک سال پہلے وہ ذہنی اور جسمانی طرح گزرا اور اس کی انجینئر بیٹی روحانی طرح گذر رہی تھی۔ ایک سال پہلے وہ عقوبت خانے کے کولڈ اسٹوریج میں ہوا کرتا تھا اور اس کی بیٹی روح سمیت کراچی کی سڑکوں پہ جل رہی ہوتی تھی۔ وہ جب آیا تو درد کی کیفیت کو جان گیا اور اب اس وقت اس درد میں مبتلا ہے جس درد میں سندھ، بلوچستان، خیبرپختون خواہ، اور پنجاب کی سیدھی معصوم ان پڑھ مائیں مبتلا ہیں۔ وہ جانتا ہے درد نظر نہیں آتا اور وہ جانتا ہے کہ درد بہت تکلیف دیتا ہے۔

وہ ماؤں بہنوں، بیٹیوں کا درد محسوس کرکے اس درد میں آپ ہی درد بن گیا ہے، اب اس کی جسمانی ہی کیا پر روحانی حالت بھی ایسی ہی ہے جیسی یہ یونانی کہاوت ہے کہ
،،تکلیف ہمجولیوں سے محبت کرتی ہے!،،

اسے معلوم تھا، وہ اس عقوبت خانے سے گزر چکا تھا، جہاں وردی پہلے ماں کی گالی دیتی ہے پھر کوئی بات ہو تی ہے۔ وہ اس درد سے گزر چکا ہے جس درد میں پہلے جوان بیوی کو رنڈی کہا جاتا ہے، پھر اس سے تفتیش کی جاتی ہے۔ وہ اس درد سے گزر چکا ہے، جس درد میں جوان بیٹی کا نام لیکر اسے یہ کہا جاتا تھا کہ وہ اب کیا کچھ کر رہے ہیں اور وہ اس کے ساتھ کیا کچھ کر سکتے ہیں۔

وہ اس عذاب خانے سے گزر چکا ہے اور وہ جانتا ہے کہ جب کوئی مسنگ ہوجاتا ہے تو اس گھر اور خاص کر اس ماں کا کیا حال ہوتا ہے، جو جوان بیٹے کا جب تک انتظار کر تی رہتی ہے جب تک جوان بیٹا گھر نہیں لوٹتا اور جب وہ بیٹا گھر لوٹتے ہی نہیں تو وہ ماں یسوع کی ماند صلیب پہ مصلوب ہی رہتی ہے۔
وہ مصلوب یسوع ہے
وہ مصلوب مریموں سے واقف تھا۔
اس لیے اس نے یہ سوچا کہ دفتر سے گھر تو وہ روز ہی جاتا ہے اور وہ مصلوب ماؤں کو ایسے ہی پریس کلب کے درپر چھوڑ کر کیوں جاتا ہے اور وہ گھر جاتا ہی کیوں ہے؟
کیوں نہ پریس کلب کے در پہ ہی ان ماؤں کی دل جوئی کی جائے؟
وہ ویسے بھی دانشور ہے، دانشور وہ نہیں جو کتابیں لکھے اور یہاں وہاں کی ہانکے۔

پر دانشور تو وہ ہے جو بہت ہی بُری کتاب کو بھی اس لائق بنا ہی دے کہ لوگ اسے پڑھیں اور اس مصنف کی قدر کریں تو اس دانشور نے ایسی سینکڑوں بُری کتابیں ایسے انداز سے شائع کی ہیں کہ ان پہ بُری کتاب کاکبھی کوئی شائبہ نہیں گذرا حالاںکہ وہ بہت بُرے مصنف تھے اور وہ بہت بُری کتابیں تھیں۔

تو انعام کو درد سے گزر کر ان ماؤں سے محبت ہوگئی جو سندھ، بلوچستان سے لیکر پنجاب، پختون خوا میں موجود ہیں جو آتے جا تے لوگوں سے اپنے زبردستی اُٹھائے ہوئے بیٹوں کا سوال کرتی ہیں اور ان ماؤں کو کوئی جواب نہیں دیتا۔ اب ان ماؤں کے سوال سننے کے لیے ان کو جواب دینے کے لیے، ان کی آواز میں آواز ملانے کے لیے انعام ان کے ساتھ شامل ہوگیا ہے۔

اب وہ دفتر سے گھر نہیں لوٹتا
اب وہ دفتر سے گھر لوٹ کر فریش نہیں ہوتا
اب وہ دفتر سے گھر لوٹ کر چینج نہیں کرتا
اب وہ اپنے کانوں میں ہیڈ فون لگا کر موسیقی سے لطف اندوز نہیں ہوتا
اب وہ سلیپنگ چئیر پہ بیٹھ کر کافی کا مگ لیئے کچھ گنگناتا نہیں
اب وہ اپنے بیڈ پہ لیٹ کر کوئی ناول نہیں پڑھتا
اب وہ رات کے آخری پہروں تک کسی بہت ہی بُری ادیب کی زباں کو درست نہیں کرتا
اب وہ اپنے بچوں کے ساتھ باہر کھانے پہ نہیں جاتا
اب وہ گھر نہیں جاتا۔ وہ گھر میں کوئی فرمائش نہیں کرتا۔
اب وہ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتا!
اب اس کا دفتر
اب اس کا گھر
اور گھر کا در

وہی پریس کلب ہے جہاں پہ وہ ان ماؤں کے ساتھ بیٹھتا ہے، جن ماؤں کے بہت غم ہیں پر وہ غم کسی کو بھی نظر نہیں آتے پر انعام کو وہ غم نظر بھی آتے ہیں اور وہ ان ماؤں کے سروں سے کھسکنے والی چادریں بھی درست کرتا ہے۔ ان کے آنسو بھی صاف کرتا ہے اور انہیں مزید رونے بھی نہیں دیتا
کیوںکہ
،،تکلیف ہمجولیوں سے محبت کرتی ہے!،،
انعام کو ان ماؤں سے محبت ہے اور وہ ان ماؤں سے مل کر ان کے دردوں کی رفوگیری کرتا ہے،
وہ ان روتی ماؤں کو ہنساتا ہے
پھر کچھ دیر یا کچھ لمحوں کے لیے ہی صحیح!
وہ ان ماؤں کے ساتھ رہتا ہے
جو مائیں اس شہر سے انجان ہیں
جو مائیں اس شہر کی گلیوں سے انجان ہیں
وہ مائیں نہیں جانتی کہ اس شہر کی کہانی کیا ہے
وہ مائیں یہ نہیں جانتی کہ اس شہر پہ کون کون قابض ہے
وہ مائیں یہ نہیں جانتی کہ ان کے سروں پہ ہاتھ رکھنے کو مراد علی شاہ کیوں نہیں آتا؟
پر وہ مائیں یہ ضرور جانتی ہیں کہ ان کے سروں سے جب بھی چادر ڈھلکے گی
انعام سندھی آگے بڑھ کر اس چادر کو درست کر لیگا
وہ مائیں یہ نہیں جانتی کہ ان کے پاس کون کون آئیگا
پر وہ مائیں یہ ضرور جانتی ہیں کہ انعام انہیں چھوڑ کر کبھی نہ جائیگا!
کیوں؟
کیوںکہ
،،تکلیف ہمجولیوں سے محبت کرتی ہے!،،
اور انعام درد کے تمام ہی رشتوں سے واقف ہے
،،بڑا ہے درد کا رشتہ
یہ دل غریب صحیح!،،


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔