آؤ پھر احتجاج کریں، آؤ پھر گھروں کو لوٹیں – محمد خان داؤد

170

آؤ پھر احتجاج کریں، آؤ پھر گھروں کو لوٹیں

محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

اس احتجاج میں ایسا کوئی بینر نہ تھا جس پر یہ لکھا ہوا ہوتا کہ
،،آؤ پھر احتجاج کریں، آؤ پھر گھروں کو لوٹیں!،،
اگر یہ لکھا ہوا ہوتا تو ہماری کار گذاری ہو بہو ایسی ہی گذرتی ہر اس احتجاج میں ایسا کوئی بینر نہ تھا
پر ایسے لکھے بینر سے کیا ہوتا ہے؟ ہماری کارگذاری ہو بہو ایسی ہی تھی، ہم گھروں سے نکلے، ہم نے احتجاج کیا اور ہم گھروں کو لوٹ گئے۔

ہم نے برمش کے لیے بھی یہی کیا تھا
اور ہم نے حیات بلوچ کے لیے بھی یہی کیا
کیوں؟
کیوں کہ ہمیں اجازت ہی اتنی ہو تی ہے کہ ہم اتنا ہی کر پائیں جتنا ہمیں کہا جاتا ہے
جتنا ہمیں دکھایا جاتا ہے اور جتنی ہمیں اجازت ہوتی ہے ہم اس اجازت سے تجاوز کیسے کر سکتے ہیں؟
ہمیں جو دکھایا گیا ہے۔ ہمیں جو روڈ میپ دیا گیا ہے۔ ہمارے پیروں میں جو سنگیاں ڈال دی گئی ہیں ہم اس سے آگے ہرگز نہیں جائیں گے۔

اس لیے ہم نے کل ماضی کی برمش کے لیے احتجاج کیا
اور کل مستقبل کی برمش کے لیے احتجاج کریں گے
کل ہم نے ماضی کے حیات بلوچ کے شہدا بھائیوں کے لیے احتجاج کیا
اور کل مستقبل میں حیات کے شہید بھائیوں کے لیے احتجاج کریں گے
اور پھر گھروں کو لوٹ جائیں گے
ہم جانتے ہیں!
ہاں ہم جانتے ہیں
ان بھونکتی بندوقوں کے نام کبھی خاموش نہ ہونگے
بھونکتی بندوقیں اس لیے نہیں ہوتی کہ ان کے نال ٹھنڈے پڑ جائیں اور خاموش ہو جائیں
نہیں وہ بندوقیں بلوچستان میں اس لیے ہی نہیں کہ وہ بھونکتی رہیں اور نخلستان میں بیٹھے بلوچ بیٹے باباؤں کے سامنے قتل ہوتے رہیں۔

کیا یہ احتجاج یا کیا ایسے احتجاج ان بھونکتی بندوقوں کے گرم نالوں کو ٹھنڈا اور خاموش کرسکتے ہیں؟
کیا یہ احتجاج یا ایسے احتجاج برمش جیسی معصوم بچیوں کو یتیم ہونے سے بچاسکتے ہیں؟
کیا یہ احتجاج یا ایسے احتجاج وردی والوں کے ناک میں نکیل ڈال سکتے ہیں؟
کیا یہ احتجاج یا ایسے احتجاج بندوقوں کے گرم نالوں کا اتنا ٹھنڈا کرسکتے ہیں کہ ان نالوں میں کوئل اپنا گھونسلہ بنا سکے؟
کیا یہ احتجاج یا ایسے احتجاج پھر کسی بھی والد کو ایسے سکتے میں مبتلا نہ کریں گے کہ وہ وردی والوں کے پیر پکڑتا رہے اور مست وردی اپنے منہ سے گالیاں اور بندوق سے گولیاں برساتی رہے؟
کیا یہ احتجاج یا ایسے احتجاج ان ماؤں کے زخمی دلوں کی رفو گیری کرسکتے ہیں جن کے دلوں کے سیکڑوں ٹکڑے ہوئے ہیں اور کوئی کہاں گرا ہے اور کوئی کہاں؟
کیا یہ احتجاج یا ایسے احتجاج ان ماؤں کی سسکیوں کو خاموش کرا سکتے ہیں جو اپنے بیٹے کی چھتڑا کی لاش سرہانے رکھے بہت روئی تھی
کیا یہ احتجاج یا ایسے احتجاج اس بابا کے اعتماد کو بحال کر سکتے ہیں جس کو اب تک یقین نہیں آیا کہ اس کا بیٹا اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کیا جا چکا ہے؟
کیا یہ احتجاج یا ایسے احتجاج اس قبر سے اس بچے کو لے آئینگے جو بہت پڑھنا چاہتا تھا جو اب ماضی کا مزار بن گیا۔

کیا یہ احتجاج یا ایسے احتجاج اس بابا کو یقین دلاسکتے ہیں کہ وہ جو پرانے قبرستان میں نئی قبر کا اضافہ ہے اس میں حیات بلوچ کو دفن کیا گیا ہے؟ اس بابا کو تو اب بھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ آئیگا اس سے اجازت چاہیے اور اپنا بیگ لیے کراچی چلا جائیگا اور کراچی پہنچ کر اپنے مخصوص لہجے میں کہے گا
،،بابا میں کراچی پہنچ چکا ہوں!،،
اب وہ کہاں پہنچا ہے؟
اور اس کا گھر کہاں پہنچا ہے؟
اس کی اماں کہاں پہنچی ہے؟
اور اس کی بہنیں کہاں پہنچی ہیں؟
اس کا منتظر بابا کہاں پہنچا ہے؟
ہم سب جانتے ہیں، پر ہم گاندھی جی کے اندھے، بہرے، گونگے بندر ہیں.
ہم سب جانتے ہوئے بھی کچھ نہیں جانتے

ہم نہیں جانتے کہ جب حیات اپنے بابا کے ساتھ نخلستان میں موجود تھا تو ان کے درمیان کیا گفتگو ہو رہی تھی، پر ہمیں اتنا تو علم ہونا چاہیے کہ وہاں کوئی علمی فلسفیانہ گفتگو نہیں ہو رہی ہوگی کیوںکہ حیات کا بابا کو دانشور نہیں تھا وہ تو بس اس کا بابا تھا اور نہ ہی ان کے درمیان ایسی گفتگو ہو رہی تھی جیسے گفتگو ایک عالم اور کازانت زاکس کے درمیان ہو رہی تھی، جس میں خدا کی موجودگی پر بحث تھی۔

بہت سی بحث کے بعد بھی وہ عالم کازانت کے سامنے خدا کی ہستی کو پیش نہ کر سکا
جب کہ کازانت نے بس بادام کے درخت کو اتنا کہا کہ
،،خدا کہاں ہے؟!،،
تو بادام کے درخت میں پھول کھلِ آئے!

پر جب تربت کے نخلستان میں کتابی باتیں چھڑی ہونگی اور بہت سی بحث کے بعد بھی بابا اور بیٹے کو محبت پر کچھ نہیں ملا ہوگا تو وہاں بھونکتی بندوقوں سے گولیاں کیوں نکلیں؟
اور وہ تمام کی تمام گولیاں حیات کے جسم سے ہو تے ہوئے بابا کو چھلنی کرتے ہوئے بہنوں کو قتل کرتے ہوئے اس ماں کی سینے میں پیوست ہوگئیں جو تمہا رے اس احتجاج سے واقف نہیں
اگر تم اس ماں کے لیے کچھ کرسکتے ہو تو
اس کا بیٹا اسے لادو
اگر اس ماں کے لیے کچھ کر سکتے ہو اس کے سینے سے وہ تمام گولیاں نکالو
اگر اس ماں کے لیے کچھ کرسکتے ہو تو اس کے زخمی دل کی رفو گیری کرو
اگر اس ماں کے لیے کچھ کر سکتے ہو تو اس کی نیند واپس لادو
اگر کچھ کر سکتے ہو تو اس بابا کا وہ بیٹا اسے لادو جو اسے یقین دلاتا تھا کہ جب وہ پڑھ لکھ کر افسر بن جائیگا تو وہ اسے بہت سا سکھ دے گا

اس بوڑھے بابا کا دکھ دور کر سکتے ہو؟
کیا تم وردی والوں سے یہ پوچھ سکتے ہو کہ مائیں کیسے بچے جوان کرتی ہیں؟
اگر تم کچھ نہیں کرسکتے
تو پھر یہ احتجاج کیوں؟
یہ ڈرامہ کیوں؟
وہ بھی اس شہر میں جس شہر میں کسی کو کچھ خبر نہیں کہ
حیات کون تھا؟
حیات کو بے حیات کس نے کیا؟
پر تم اس ہونے والے احتجاج میں یہ تو کرسکتے ہو نہ کہ ایک ایسا بینر بھی لکھواؤ
جس پر لکھا ہوا ہو کہ
،،آؤ پھر احتجاج کریں، آؤ پھر گھروں کو لوٹیں!،،
اور پھر بہت سی تصاویر بنائیں
انہیں سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر چسپاں کریں.
اور رات تک پریشان اور بے چین رہیں کہ کس نے دیکھا کس نے لائیک کیا اور کیا کمنٹس لکھا
ہاں تم کچھ نہیں کرسکتے
تم بس دی ہوئی لائین پر احتجاج کرسکتے ہو
تو پھر کرو
اور مرتے رہو!
تم تو حیات کی ماں کے آنسو بھی نہیں پونچھ سکتے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔