معاف نہ کرنے کی وجوہات اور اس کا حل – نعیم قذافی

110

معاف نہ کرنے کی وجوہات اور اس کا حل

تحریر: نعیم قذافی

دی بلوچستان پوسٹ

سوال: لوگوں کو معاف کرنے کے بعد بھی اگر دل میں کھوٹ اور بات نہ کرنے کا رویہ رہے تو کیا کرنا چاہیئے؟
جواب: جس کو آپ دل خیال کر رہے ہیں درحقیقت وہ دل نہیں بلکہ ذہن ہے۔ آسان لفظوں میں یوں کہیں کہ یہ دل کا معاملہ نہیں بلکہ ذہن کا گٹھ جوڑ ہے کیونکہ دل کے آگے ذہن ہمیشہ حائل بن کر رہتا ہے۔

معاف نہ کرنے کی وجوہات اور اس کا حل:
پہلی وجہ:
کہیں نیت میں کوئی کھوٹ تو نہیں؟ چناچہ ایمان کمزور ہو تو وہ نیت پر اثرانداز ہوتا ہے، جس پر دل معاف یعنی احسان نہ کرکے بات کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا؛ اگر یوں کہیں تو یہ بےجا نہ ہوگا کہ آپ کے دل پر مہر تو نہیں لگا، جس کی وجہ سے آپ دوسروں کو معاف کرنے کے لیے آمادہ نہیں یا معاف نہیں کر پا رہے؟ آپ دوسرے کو معاف کر دیں۔ اسے معاف کرنے سے آپ اس پر احسان کرتے ہیں۔ احسان کرنے والا کس پر احسان کرتا ہے؟ اپنے آپ پر احسان کرتا ہے۔ دوسرے پر احسان دراصل اپنے آپ پر احسان ہے۔

دوسری وجہ:
کہیں آپ کے قلب میں انتقام لینے کا ارادہ تو نہیں جس کی وجہ سے اپنے اندر آپ کی آگ لگی ہے؟ اپنے اندر کا آگ نکالنے کے لئے آپ دوسرے پر احسان کریں کیونکہ اپنے اندر سے وہ ناسور نکالنا ہے جو ناپسندیدگی کا ہے، نارضامندی کا ہے اور دوسرے کی بے وقوفی کا ہے اور دوسرے کے ظلم کے خیال کا ہے۔ پھوڑا تو آپ کے اندر ہوتا ہے اور تکلیف میں بھی آپ ہو، چاہے جس حوالے سے آپ کا کوئی بھی ارادہ ہے اسے بدل ڈالئے پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ کا دل نہ صرف معاف کرنے کے لیے آمادہ ہو گا بلکہ وہ پھر بات کرنے کے لیے بھی بیتاب ہو سکتا ہے۔

سوال: اس الجھن کا حل تو مل گیا۔ اب آپ جناب احسان کے بارے میں کچھ بتائیں کہ احسان کیا ہے، یہ جاننے کی مجھے بہت تجسس ہے، بڑا بیتاب ہوں۔ یہ معاملہ بھی حل کر دیجئے۔

جواب: نامور شخصیت حضرت واصف علی واصف بالکل واضح اور مدلل الفاظ میں احسان کے حوالے سے کہتے ہیں کہ جو آدمی آپ کی طرف بُری نیت کے ساتھ آئے اور وہ آپ کی طرف سے کوئی اچھا عمل لے کے جائے تو سمجھ لیں کہ آپ نے اس پر احسان کیا۔ مثلا:ً_ آپ کے گھر کے اندر ایک چور چوری کرنے کی نیت سے آتا ہے اور آپ پکڑ کر اسے معاف کر دیتے ہیں، رپورٹ کرنے کی بجائے اس کے برعکس آپ اسے کچھ پیسے دے دیتے ہیں، جس کے لیے وہ آیا ہے؛ شاید تھوڑی سی رعایت کرنے پر پھر وہ انسان بن جائے۔ دوبارہ آپ حضرت واصف علی واصف فرماتے ہیں کہ احسان، معافی کا اگلا درجہ ہے۔ اگر تم احسان کر دو تو تمہارے لئے بہتر ہے۔ اگر تم معاف کر دو تو تمہارے لئے بہتر ہے اور تمہارے لئے یہ کرنا آسان ہے۔ تم معاف کر دو تاکہ تم معاف کئے جاؤ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔