ساجد اپنے وجود کو تلاش کررہا تھا ۔ عبدالواجد بلوچ

455

ساجد اپنے وجود کو تلاش کررہا تھا

تحریر۔ عبدالواجد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سارتر زندگی کو بے مقصد قرار دیتا ہے، اس کی نظر میں زندگی کی کوئی معنی نہیں، انسان اپنا خود خالق ہے اور اپنے افعال اور اقدام کا خود ذمہ دار ہے۔ کسی کو اس کے کردار، اس کی منزل یا اس کی زندگی کی سمت متعین کرنے کا حق حاصل نہیں۔ سارتر کے نزدیک زندگی کا مقصد کامل آزادی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ کرب سے آزادی حاصل کرے اور اس بات سے چھٹکارا حاصل کرے کہ وہ آزاد نہیں ہے۔

ساجد اپنا وجود تلاش کررہا تھا، وہ آزاد تھا لیکن انہیں تلاش تھی اپنے وجود کی، وہ ڈھونڈتا رہا، کھوجتا رہا، تلاش کرتا رہا، ایسا لگ رہا تھا کہ یہ تلاش انتہائی مشکل ہے پر وہ ہارے نہیں، تھکے نہیں، چلتا رہا، رک گیا اس سفر کو جاری رکھے کبھی وہ کراچی کے وحشت ناک گلیوں میں مٹر گشت کرتا دکھائی دیا تو کبھی وہ اچانک ہی یوگنڈا کے ان غریب کالے بچوں کو ان کی وجودیت کا احساس دلا رہا تھا، کبھی ایسا بھی ہوا کہ وہ عرب بدوؤں کے ہاں اُس احساس کو تلاش رہا تھا، جہاں اُس احساس کا صدیوں پہلے قتل ہوچکا تھا۔ جی ہاں یہ وہی تلاش تھی کہ اک دم ساجد کو احساس ہوا چلا کہ نہیں۔

کراچی کا خاک چھانوں یا یوگنڈا کے جنگلوں میں چلّہ کاٹوں جس تلاش کے پیچھے میں چکریں کاٹ رہا ہوں اس تلاش کا مرکز یہاں نہیں بلکہ یورپ کے نرم مزاج ماحول خاموشی و سنّاٹے کی ایک ایسے عالم میں ہی مَیں اپنا وجود تلاش کرسکتا ہوں۔ یہی وجہ تھی جس نے ساجد کو یورپ کی طرف رختِ سفر باندھنے پر مجبور کیا، حالانکہ وہ شاھان اور تاھیر کو اپنے امباز میں لیکر کراچی کے تنگ گلیوں میں عام افراد کی طرح اپنی زندگی گذار سکتا تھا۔ لیکن کیا کریں جب تلاش اپنے وجود کی ہو اور بندہ ہو کتاب کا شیدائی قلم کو ہتھیار بنا کر جاہل سماج کو عقل سلیم دلانے کی تگ و دو انہیں اس دیار سے کوچ کرنے کو مجبور کیا. انہیں یہ احساس تھا کہ یہ سفر لمبا ہے مشکلات سے بھرا پڑا راستے خاک چھاننے کا سفر مشکل ہی سہی پر ناممکن نہیں اسی لئے تو انہوں نے اپنے نامکمل کتاب کا ایک ورق اپنے دوست کو دے کر یہ کہا جب تاھیر اٹھارہ سال کی ہو انہیں دے دینا۔

ساجد ہمارا سارتر تھا، وہ بلوچ کے لئے اپنا وجود تلاش کررہا تھا، اس لئے انہیں یہ احساس تھا کہ بلوچ روایتوں کے بندھن سے نکلے کچھ دور کا سوچے، اسی لئے تو سیاست کے اس گورکھ ھندے سے وہ کوسوں دور تھا لیکن وہ بلوچ کے لئے سوچتا تھا جس طرح ایک سیاست کار سوچتا ہے وہ اس لئے اپنا وجود تلاش کررہا تھا کیونکہ انہیں یہ پتا چل چکا تھا کہ وجودیت روایتی فکر کے خلاف ایک بغاوت ہے جی ہاں انہوں نے بغاوت کی .

سارتر انسان کو پرانے رواجوں اور روایتوں کے بندھن سے آزاد کرانا چاہتا تھا، یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ وجودیت روایتی فکر کے خلاف ایک بغاوت ہے، سارتر نے اپنے ناول نوسیا میں ہیرو کے کردار سے اس کی وضاحت کی کوشش کی ہے ہیرو بے معنی اور لغویت میں معنی تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ اس بات پر خوش ہے کہ اس نے یہ کام خود منتخب کیا ہے اور آزادانہ طور پر کیا ہے، اس پر یہ کام تھوپا نہیں گیا۔ سارتر کے نزدیک انتخاب کرنے کا مطلب دراصل روایتی سوچ سے پیچھا چھڑانا ہی ہے۔ سارتر اس کو کامل آزادی کا نام دیتا ہے. ساجد بھی سارتر کی طرح کامل آزادی کو قلم کتاب اور کاغذ کو سیاہ کرکے ہی ایک منزل دینا چاہ رہا تھا لیکن بس انہیں یہ لمحہ بھر یہ احساس نہ رہا کہ جہاں وہ سانسیں لے رہا ہے وہیں ہی ان کی سانسیں روک دی جائیں گی وگر نہ وہ تاھیر اور شاھان کو اپنے سے کبھی دور نا کرتا..!

ساجد نہ رہا ۔۔۔۔۔۔پر وہ دوست اب اس انتظار میں ہے کہ کب تاھیر اٹھارہ سال کی ہو اور وہ انہیں وہ اوراق دے کر کہے کہ تاھیر تمہارا ابو اپنا وجود تلاش کرتے کرتے انسانیت کے علمبردار ملک جہاں انسان کو ایک احترام دیا جاتا ہے اس دیس میں ہی اپنا رختِ سفر باندھ کر حقیقی دیار کو کوچ کرگئے، شاید انہیں اپنا وجود وہیں ہی ملے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔