خضدار: حاجی احمد خان میروانی مسلح افراد کے حملے میں بیٹے اور بیٹی سمیت شدید زخمی

2835

حملہ آوروں کی شناخت فیاض زنگیجو گروہ سے ہوئی ہے، جن پر الزام ہے کہ وہ خفیہ اداروں کیلئے کام کرتے ہیں

دی بلوچستان پوسٹ نیوز ڈیسک کو موصول اطلاعات کے مطابق آج ضلع خضدار کے علاقے کٹھان میں حاجی احمد خان میروانی نامی شخص پر مسلح افراد نے حملہ کرکے انہیں انکے بیٹے رمضان میروانی اور بیٹی اسماء میروانی سمیت شدید زخمی کردیا ہے۔

سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں احمد خان میروانی کو خضدار سول ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں زخمی حالت میں  حملہ آوروں کی شناخت فیاض زنگیجو ولد طارق زنگیجو اور شاہنواز زنگیجو ولد عبداللہ کے ناموں سے کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے، اس ویڈیو میں انکے بیٹے رمضان میروانی کو نیم بیہوشی کی حالت میں دیکھا جاسکتا ہے، جبکہ حملہ آوروں نے انکی بیٹی اسماء میروانی کو بھی نشانہ بنایا ہے، جو ویڈیو میں واضح طور پر زخمی نظر آتی ہے۔

یاد رہے فیاض زنگیجو پر الزام عائد ہوتا رہا ہے کہ وہ ایک ایسے جرائم پیشہ گروہ کی قیادت کررہے ہیں، جنہیں بلوچستان میں “ریاستی ڈیتھ اسکواڈ” کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ جن کی تشکیل مبینہ طور پر خفیہ اداروں نے کی ہے۔

بلوچ قوم پرست جماعتیں یہ الزام عائد کرتے رہے ہیں کہ ان جرائم پیشہ افراد کو خفیہ اداروں نے بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف تشکیل دیا ہے اور بدلے میں انہیں اسلحہ اور ہر قسم کی آزادی فراہم کی گئی ہے کہ وہ ہر طرح کے جرائم کرسکتے ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ نے مزید معلومات کیلئے اپنے خضدار نامہ نگار سے بات کی تو انکا کہنا تھا کہ ” مبینہ طور پر بلوچ قوم پرستوں کو کچلنے کیلئے خفیہ اداروں نے خضدار میں جرائم پیشہ افراد کے متعدد چھوٹے بڑے گروہ تشکیل دیئے، یہ گروہ ببانگ دہل پاکستان آرمی و خفیہ اداروں کیلئے کام کرنے کا اعلان کرتے ہیں، سوشل میڈیا تک پر انکے مسلح تصاویر گردش کرتے ہیں  انہی جرائم پیشہ افراد کے گروہوں میں سے ایک فیاض زنگیجو گروہ ہے۔ انکے گروہ میں احمد زنگیجو ولد محمد بخش، محمد زنگیجو ولد محمد بخش، شاہنواز زنگیجو ولد عبداللہ زنگیجو، جلیل زنگیجو ولد خدا بخش، مہراللہ زنگیجو ولد الٰہی بخش، عادل زنگیجو وغیرہ شامل ہیں۔”

نامہ نگار نے مزید کہا کہ مبینہ طور پر بلوچ قوم پرستوں کے خلاف متحرک ہونے اور مخبری کے علاوہ یہ گروہ آر سی ڈی شاہراہ پر گاڑیوں کو لوٹنے اور زمینوں پر قبضہ کرنے میں سرگرم ہے، لیکن مقامی انتظامیہ انہیں گرفتار کرنے سے قاصر ہے، فیاض زنگیجو اس سے قبل متعدد بار گرفتار کیئے جاچکے ہیں لیکن مبینہ طور پر خفیہ ادارے انہیں چھڑا دیتے ہیں۔

یاد رہے فیاض زنگیجو پر متعدد قتل کے بھی مقدمات ہیں، ان پر دو بھائیوں اشرف اور نواز ولد گل حسن کو سرعام قتل کرنے کا الزام ہے، اس سے پہلے انہیں خضدار کے علاقے کٹھان کے کرد قبیلے پر زمین کے تنازعے پر فائرنگ کرکے ایک شخص کو قتل کرنے کا بھی مقدمہ چل رہا ہے، جس میں وہ گرفتار بھی رہے تھے لیکن مبینہ طور خفیہ اداروں سے ڈِیل میں انکے مقدمے واپس کیئے گئے تھے۔

مزید معلومات کے مطابق احمد خان میروانی پر حالیہ حملہ انکے زمینوں پر قبضہ کرنے کیلئے کیا گیا تھا، مذکورہ ویڈیو میں احمد خان کو حکام بالا سے انصاف کی اپیل کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

اس حملے میں انکی بیٹی اسماء میروانی بھی شدید زخمی ہوگئی ہیں۔ حالیہ مہینوں میں بلوچ خواتین پر مبینہ “ڈیتھ اسکواڈوں” کے حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، گذشتہ ہفتے چار اپریل کو واشک کے علاقے راغے شنگر سے مبینہ طور پر سرکاری حمایت یافتہ گروہ سے تعلق رکھنے والے زین جان ولد نور جان نے شادی کی تقریب کے دوران دلہن شبانہ ولد عبدالاحد کو اغواء کرکے اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔ جس کے بعد شبانہ کے حوالے سے معلومات نہیں مل سکی ہے۔

بلوچستان میں خواتین کی حقوق اور انسانی حقوق کی تنظیمیں حالیہ سالوں بلوچ خواتین پر تشدد اور انکے جبری گمشدگیوں کے خلاف متعدد بیانات جاری کرچکے ہیں اور احتجاج کرچکے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا ہے کہ ایک جانب پاکستان آرمی اجتماعی سزا کے طور پر بلوچ خواتین کو لاپتہ کرکے ان پر تشدد کررہی ہے اور دوسری جانب مبینہ طور پر ریاستی حمایت یافتہ ڈیتھ اسکواڈ بھی بلوچ خواتین کے اغواء اور ان پر تشدد میں اضافہ کرچکے ہیں۔

بلوچستان میں انسانی حقوق کیلئے متحرک تنظیم کا الزام ہے کہ خضدار میں رونما ہونے والا حالیہ واقعہ جس میں فیاض زنگیجو گروہ نے بلوچ خاتون اسماء میروانی کو تشدد کا نشانہ بنایا اسی عمل کا تسلسل نظر آتی ہے۔

مختلف بلوچ سیاسی جماعتیں اور انسانی حقوق و خواتین حقوق کی تنظیمیں بلوچ خواتین پر تشدد اور مبینہ ریاستی ڈیتھ اسکواڈوں کو حاصل کھلی چھوٹ پر شدید خدشات کا اظہار کرچکے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ بلوچ خواتین پر حملہ نا صرف بلوچ روایات کے منافی ہے بلکہ ایسے عوامل سے لوگوں کے غم وغصے میں مزید اضافہ ہوگا۔

دی بلوچستان پوسٹ کو موصول آخری اطلاعات تک میر احمد خان میروانی اپنے بیٹے اور بیٹی کے ہمراہ انتہائی زخمی حالت میں طبی امداد وصول کررہے ہیں، تاہم حملہ آوروں کے گرفتاری کے بابت کوئی اطلاع موصول نہیں ہوئی ہے۔