جدید نیشنلزم ،مشترک قومی وسائل اور تحفظ – صورت خان مری

941

جدید نیشنلزم، مشترک قومی وسائل اورتحفظ

تحریر : صورت خان مری

دی بلوچستان پوسٹ 

ضروری نوٹ : بلوچ مفکر و دانشور صورت خان مری کا یہ کالم 14 فروری 2003 کو روزنامہ آساپ میں شائع ہوا تھا ۔

بلوچ لکھنے والے،سیاسی کارکن اوردانشورکوئی کام کرنے سے قبل پاکستان اورموجودہ پاکستانیت میں ڈھل کریوں گم ہوجاتے ہیں وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ان کی اپنی ایک پہچان ایک شناخت ہوسکتی ہے، اوراس تاریخی پہچان میں اورجووہ سمجھ رہے ہیں،اس میں مشرق اورمغرب کا بعد اور فاصلے ہیں،حال ہی میں ہم ایک پڑھے لکھے سیاستدان(جوسابق وزیراوراپنی پارٹی کے اعلیٰ عہدیداربھی ہیں)ان کا بلوچی انٹرویو پڑھ رہے تھے۔ہم حیران رہ گئے کہ جس پستی اورگراوٹ کا تاثر ان کی بات چیت پڑھنے کے بعد ابھرتا ہے۔ کیا وہاں تک کوئی آدم زاد گرسکتا ہے۔چہ جائیکہ ایک بلوچ، جس کے معاشرہ اورسوسائٹی کے بارے میں تمام تحقیق کرنے والے اورماہرین متفق ہیں کہ بلوچ معاشرہ اورسماج،اخلاقی اور مورل Moral کمیونٹی پرہے۔(اگوفیبتی) اوریہ اخلاق اورمورملٹی اس گہرائی میں ہے کہ مثلاً ایک شخص اس بری طرح مخالف کے ہاتھ سے مارپیٹ کھاتا ہے کہ ہڈیاں تڑوا کر ہفتوں مہینوں ہسپتال میں زیرعلاج رہتا ہے اورجب اس کا بھائی،بیٹا یا رشتہ دار بدلہ کی آگ میں جل کر بدلہ لینے نکلتا ہے تو کہیں اگراس مخالف سے سامنا ہوجائے اور کسی ایک کوبھی یہ احساس ہوجائے کہ مخالف جس سے بدلہ لینے کے لئے وہ نکلا تھا اورسامنے کھڑا ہے۔بزرگ ہے ان سے عمر میں یا کسی اوروجہ سے محترم ہے توبدلہ لینے والے اس کو صرف یہ کہیں گے کہ”آپ ہمارے ہاتھوں مارکھاچکے ہیں اورپٹ گئے ہیں ہم نے بدلہ چکایا ہے“ یا زیادہ سے زیادہ اس کی پگڑی کے بل اتارلیں۔توبدلہ چک جاتا ہے وہ مخالف شخص خود پگڑی ہاتھ میں لے کرکیمپ،گاؤں چلا جاتا ہے اور حال احوال میں یہ اعتراف کرتا ہے کہ بدلہ چکایا جاچکا ہے۔ ہم نے جس بات چیت یا انٹرویوکا ذکرکیا ہے سے محسوس ہوتا ہے کہ ہم لکھنے والے، سیاسی کارکن یا دانشور شایدنام کے ساتھ”بلوچ“ لکھ کر یا بلوچ حقوق کی زبانی بات کرکے نیشنلزم اور نیشنلسٹ بنتے ہیں اورعمل و کام میں پاکستانیت میں ڈھلے ہوئے ہیں جن کا اظہارحالیہ پارلیمانی سیاست کے ووٹ الیکشن اورنتائج کے جذبے میں مغلوب وہ انٹرویوبھی شامل ہے۔

نیشنلزم ایک مکمل پہچان ہے۔ حقوق لینا یا دلوانا بے شک ایک اہم پہلو رکھتا ہے اس بات پربھی پولیٹیکل سائنس کے مفکراوردیگرفلاسفروں کا اتفاق ہے کہ نیشنلزم کی انتہا کا ادارہ قومی ریاست ہے اورنیشنلزم، سوشلزم اورجمہوریت ایک دوسرے کے لئے لازم وملزوم ہیں جس کوآج کی دنیا میں سوشل ڈیموکریسی کہتے ہیں۔ ایک کی کمی کا مطلب پورے کا فقدان ہے۔بلوچ نیشنلسٹ،ایک فرد، ایک گروہ کی پہچان یا شناخت نہیں بلکہ بلوچ قوم کی پوری اکائی ہے۔تمام افرادکا مجموعہ ہے۔ دلچسپ یہ ہے کہ نیشنلزم اورقومی ریاست کے تصور کے بارے میں مفکرین ولسن (سرمایہ دارانہ نظام) اورلینن دونوں کا اتفاق تھا البتہ نیشنلزم کی تعریف کے ابتدائی مدارج میں اقتصادی اور مالی پہلونمایاں نہیں تھا۔ اس پہلو کو لیننزم اور سٹالن نے اہمیت دی۔ اوراسی تکمیلی مدارج کی مناسبت سے ہم سمجھتے ہیں کہ بیسویں صدی کی اولین دہائیوں میں نیشنلزم کی ایک پوری تعریف پولیٹیکل سائنس کے مفکرایچ جے لاسکی نے کی تھی۔ نیشنلزم، قوم قومی ریاست، سوشلزم پران کی درجنوں کتابیں کئی کئی ایڈیشنوں میں بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں باربارچھپی ہیں۔ نیشنلزم کے بارے میں مندرجہ ذیل اقتباس ہم نے ان کی کتاب گرامر آف پالیٹکس کے ۵۳۹۱؁ء کے ایڈیشن سے لئے ہیں۔ امریکی جذباتی اورقومی احساس پرمبنی قومیت کے پیش نظر یہ بات آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ نسل کی بنیادپرقومیت کاتصور انتہائی کمزور اورمشکوک ہے اورنہ ہی کوئی یورپین قوم نسلی طورپر خالص ہونے کادعویٰ کرسکتی ہے قومیت کے لئے زبان بے شک ایک اہم عنصر ہو سکتی ہے لیکن سوئٹزرلینڈ میں کئی زبانیں بولی جانے کے باوجود قومی تصورانتہائی مضبوط ہے سیاسی وفاداری اوریکجہتی بھی قومی وحدت کے لئے اہم ہے۔قوم کے لئے آزاداور الگ وطن کا ہونا جہاں بنیادی کردارکا حامل ہے وہاں یہودیوں کی بے وطنی کے باوجود،قومی وحدت کے جذبہ نے قوم کو صدیوں ہزاروں سال تک متحدرکھا اسی بناء پروطن کے حصول کی تڑپ اورجدوجہدکوبنیادی حیثیت حاصل ہے۔ میں یعنی(لاسکی) جناب رینان سے اس بات پراتفاق کرتاہوں کہ بنیادی طورپرقوم کی وابستگی براہ راست روحانی اورجذباتی ہوتی ہے اس میں ایک خاص اتحاداورمتحدہونے کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔ جودیگراقوام اورلوگوں سے اس کی پہچان، شناخت کو الگ تھلگ رکھتا ہے ایک مشترک تاریخ اس یونٹ کو اکٹھا رکھتی ہے اوراس میں اتحادپیدا کرتی ہے اس اتحادور اکٹھے رہنے کے جذبہ تلے وہ مشترک جدوجہدکرتے ہیں اورجنگیں لڑتے ہیں۔ جنگوں میں آگے بڑھنے اورفتوحات حاصل کرنا ایک نیا قومی ولولہ پیداکرتا ہے ان جذبوں اورولولوں سے مزید روایتیں جنم لیتی ہیں اورپرانے دستورمضبوط ہوتے ہیں خاص کرجنگوں اورجدوجہدکے نتیجے میں اپنائیت کے رشتے قائم ہوتے ہیں اوریکسانیت پیداہوتی ہے جوان مخصوص لوگوں کو دوسروں سے الگ اورنمایاں کرتی ہے یہ سماجی رشتہ اوروراثت خاص طورپرانہی کا اپنا ہوتا ہے ان لوگوں کا اپنا مخصوص فن، ادب اورروایتیں ہوتی ہیں۔ جوایسی بنیادیں فراہم کرتی ہیں جن سے ان کی مخصوص پہچان بنتی ہے۔ انگریز شکسپیر اور ڈکنز سے پہچانے جاتے ہیں والٹیراور کانت، فرانساور جرمن کی پہچان ہیں۔ نیشنلزم میں یکجہتی اورزندہ رہنے کی اتم قوت موجودہوتی ہے۔ اس کی شروعات اورابتداء خانہ بدوشانہ زندگی اور خوراک کی تلاش کی جدوجہدخاص کرشکارکے لئے مل جل کر کوششیں انہیں قریب سے قریب لاتی رہتی ہیں (ہنری پٹنگر نے بلوچ نیشنلزم کی یکجہتی اوراتحادکی بنیادعسکری مہمات خاص کر دیگراقوام کے علاقوں میں جاکرڈاکے ڈالنے کی مہم جویوں کوقراردیاتھا)جبکہ انتھراپولوجسٹ فریڈشلز نے قومی یگانگی اوربنیاداستوار ہونے کے لئے زمینی حدودبرداریSpatial use کے کلیہ کواہم قراردیا۔ یعنی جہاں جہاں لوگوں کے مشترک گروہ خانہ بدوشانہ زندگی میں رہتے رہے وہاں مختلف صورتوں میں آہستہ آہستہ آبادہوتے بھی چلے گئے۔ جس سے وطن،قوم ہردو کی محبت یکجہتی کاتصور پیداہوتا چلاگیا) اکٹھے رہنے اورزندگی کی جدوجہد،دکھ درد میں شرکت ایک خاص لگاؤ اوراتحادپیداکرتا ہے یہ تمام عناصرمل کرانہیں حملہ آوروں کے مقابلے کے لئے تیار کرتے ہیں۔فتح ان کے دلوں میں سرزمین(گل زمین۔بلوچی) اوروطن کے لئے محبت کے جذبات پیداکرتے ہیں اوراس زمین سے ان کی محبت بڑھتی ہے۔آنے والی نسلیں ان روایتوں اوروطن کی الفت پرنازاں ہوتی ہیں۔ جنگوں اورجنگوں کے تجربوں نے خاص کرجدیدنیشنلزم کے جذبات کواستحکام بخشا اس میں شک نہیں کہ بعض اوقات سمجھ میں نہ آنے والے حادثات و واقعات بھی رونما ہوتے ہیں۔مثلاً یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کس طرح انگریز مقامی قبائل،فرانسیسی حملہ آوروں کے ساتھ مل جل کر رہتے رہے اور انہوں نے انگریز قوم تشکیل دی۔بہرحال اہم ترین بات یہ ہے کہ نیشنلزم بنیادی طورپرعلیحدگی پسندہے اوراس میں بھی خالصتاً مالی اورمعاشی مفادات کا پہلو فیصلہ کن حدتک کارفرمانہیں ہوتا۔آسٹریا اورہنگری کی علیحدگی مالی اورمعاشی طورپرتباہ کن تھی لیکن علیحدگی کا مطالبہ انتہائی شدیدتھا۔انگریز کی عملداری(۵۲۹۱؁ء) کتاب کی طباعت کا سال) ختم ہونے سے مصرمعاشی بدحالی کا شکارہوگا۔لیکن وہ خودمختاری چاہے گا اسی طرح اگرکینیڈا۔امریکہ سے مل جائے تومعاشی طورپرکینیڈا کوفائدہ ہوگا۔برطانیہ کا ہندوستان سے انخلاء بھارت کے لئے نہ صرف مالی طورپرتباہی کے کنارے لائے گا۔ بلکہ امن وامان کے حوالے سے انارکی اوربدنظمی پھیل جائے گی لیکن ہندوستانی،انگریز کی طرف سے امن وامان کی بحالی سے اپنی بدامنی اورجھگڑوں کے ماحول کواولیت دینگے۔

نیشنلزم میں اکٹھے رہنے کی فطری اورجبلتی خواہش ہوتی ہے یعنیHerd-Instinct جیسے کہ ایک گھرمیں رہنے والوں میں پایاجاتاہے۔ایسا ہونا ممکن ہے کہ جنگ کے محاذ پرجانے اورجنگ کی ابتداء کرنے کے لئے اختلاف رائے ہو۔مگرقومی جنگ چھڑنی اوراعلان کے بعدفطری جبلت انہیں مشترک مقابلہ کے لئے مجبورکرتی ہے۔

انیسویں صدی کے تجربہ نے ثابت کیا ہے کہ ریاستیں جہاں کئی اقوام بستی ہوں وہ بدی اوربرائی کی بلائیں ہیں۔ Monstroushy birds ہیگل اورمزینی کا اس بات پراتفاق ہے کہ قومی ریاست اداروں کی فطری تکمیل ہے اورانسانی وفاداریوں Allegiance کا منبع بھی ہے۔ جاری ہے


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔