ہمیں تکالیف برداشت کرکے ثابت کرنا ہے کہ ہم ہی غلام محمد کے نظریاتی وارث ہیں – بی این ایم پروگرام

100

شہید واجہ غلام محمد نے بی این ایم کے توسط بلوچ قومی تحریک کی قیادت سیاسی کارکنان کو منتقل کی۔ آپ کہا کرتے تھے کہ بی این ایم لیڈروں کی نہیں ، کارکنان کی جماعت ہے۔

ان خیالات کا اظہار شہدائے مرگاپ کے حوالے سے بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کے ‘ درس و انقلابی تنظیم ‘ کے عنوان سے پروگرامات کے سلسلے کے دوسرے پروگرام میں کیا گیا۔ اس پروگرام میں بی این ایم کے انفارمیشن و کلچرل سیکریٹری قاضی داد محمد ریحان، ہیومین رائٹس سیکریٹری ڈاکٹر ناظر اور پارٹی کے سینئر ممبر ماما انور نے خطاب کیا۔

انھوں نے کہا شہید واجہ غلام محمد نے بی این ایم کے پیغام کو عام کرنے کے لیے سادہ زندگی اپنائی۔ بسوں میں تنہا سفر کرکے آپ نے بلوچ تحریک کا پیغام بلوچستان کے ہر کونے میں عام کیا۔ آپ صرف ایک سیاسی جماعت کے رہنماء نہیں تھے بلکہ ایک قومی رہنماء تھے اور اپنے فیصلوں میں بلوچستان کے تمام سرکردہ رہنماء اور اسٹاک ہولڈرز کو ساتھ لے کر چلتے تھے۔ آپ جس علاقے میں جاتے وہاں بلاتفریق ہر سیاسی کارکن تک اپنی رسائی ممکن بنانے کی کوشش کرتے اور انھیں تحریک آزادی کا پیغام پہنچاتے۔

انھوں نے کہا شہید غلام محمد ، لالا منیر اور شیر محمد کی شہادت سے بلوچ قوم نے محسوس کیا کہ اس جدوجہد کے سرکردہ رہنماء قربانی کے جذبے سے سرشار ہیں اور اپنے مقصد سے پیچھے ہٹنے والے نہیں۔ اس سانحے کے بعد بلوچ قوم کا تحریک پر اعتماد مزید مضبوط ہوا اور بلوچ قوم کی بڑی تعداد تحریک آزادی کا متحرک حصہ بنی۔

ان کا کہنا تھا تنظیم تب مضبوط، مستحکم اور تسلسل کے ساتھ اپنے پروگرام کو آگے بڑھا پاتی ہے جب اس میں ہر کارکن اپنا حصہ ڈالتی ہے۔ جماعتیں کمپنیاں نہیں ہوتیں کہ وہ کارکنان کو تنخواہیں ادا کریں بلکہ یہ کارکنان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی جماعت کو مالی اور افرادی قوت فراہم کریں۔ معاشی استحکام کسی ملک ، سماج اور جماعت کے لیے بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ ہر کارکن سب سے پہلے اپنی انفرادی معشیت کے لیے راستہ تلاش کرئے ، معاشی طور پر مضبوط کارکنان ایک مضبوط تحریک چلاتے ہیں لہذا ہمیں خودانحصاری پیدا کرنی اور بڑھانی ہوگی۔

پارٹی قائدین نے پروگرام کے اختتام پر کارکنان کے سوالات کے جوابات بھی دیئے۔ انھوں نے کہا بی این ایم بلوچ سیاست میں باہمی رسہ کشی اور مہم جوئی کی حمایت نہیں کرے گی۔ بلوچ کے مفاد کے بر خلاف کوئی بھی عمل بی این ایم سے کبھی سرزد نہیں ہوا اور مستقبل میں بھی ایسا کوئی قدم نہیں اٹھائیں گے جو بلوچ قومی مفاد سے متصادم ہو۔ پارٹی کے خلاف پروپیگنڈے کا جواب سوشل میڈیا پر نہیں ہم اپنے کردار سے دیں گے۔ قوم تجزیہ کرئے ، مشاہدہ کرئے بی این ایم آج ماضی سے زیادہ متحرک اور امیدافزا تنظیمی پیشرفت میں ہے جسے پارٹی کے کارکن کو محفوظ بنانا ہے۔

قاضی ریحان نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ پارٹی کارکنان کو کئی مرتبہ واضح ہدایات کی گئی ہیں کہ وہ متنازعہ اور ایسے موضوعات پر جہاں ہماری رائے منقسم ہے سوشل میڈیا پر مباحث کا حصہ نہ ہوں۔ کسی بھی تنظیم کے خلاف جو کسی بھی پیمانے پر بلوچ بقاء اور جہد آزادی کا حصہ ہو سوشل میڈیا پر جوابی مہم نہ چلائیں۔ پارٹی کے خلاف غیرضروری مہم کا حصہ نہ بنیں بلکہ صرف اور صرف تحریک آزادی کے پیغام کو پھیلائیں ، یہی شہدائے مرگاپ کی شہادت کا درس اور ہمارے سیاسی پیغمبر شہید واجہ غلام محمد کا فلسفہ ہے۔ ہمیں تکالیف برداشت کرکے ثابت کرنا ہوگا کہ ہم ہی غلام محمد کے نظریاتی وارث ہیں۔

تاہم انھوں نے تنقید اور خود تنقیدی کی پرزور وکالت کرتے ہوئے کہا ہمیں اپنے کردار و عمل کا تجزیہ کرنا ہوگا۔ کارکنان اور بلوچ عوام کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ تحریک اور تحریک سے جڑی تنظیموں کے ہر عمل پر تنقیدی نگاہ رکھیں ، اس حق سے سیاسی کارکنان کو محروم کرنے سے تحریک غیرمتوازن ہوگی۔مگر ، ہمیں اختلاف رائے رکھنے کے باوجود اداروں اور قیادت کے فیصلوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ تنظیمی نظم و ضبط کی خلاف ورزی ہمیں منتشر کردے گی۔ یاد رہے تنقید ایک اصلاحی اور تعمیری عمل ہے اس کے تخریبی نتائج کا ہمیں ادراک ہونا چاہیے ، اور ایسے مواقع پر انفرادی رائے کی بجائے قیادت اور اداروں کے فیصلے پر متفق ہونا ضروری ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ بی این ایم کی قیادت ہماری منتخب کردہ ساتھیوں پر مشتمل ہے جسے چار سال تک مینڈیٹ دیا گیا ، تنقید کے ساتھ ان کے مینڈیٹ کا احترام ہمارے فرائض میں شامل ہے۔

قبل ازیں شہدائے مرگاپ کی شہادت کی مناسبت سے ‘ درس و انقلابی تنظیم ‘ کے عنوان سے بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کے تربیتی نشستوں کے سلسلے کا پہلا پروگرام آواران ۔ مشکے ھنکین میں منعقد کیا گیا جس میں مذکورہ ھنکین اور پنجگور ھنکین کے مختلف یونٹس کے ممبران نے حصہ لیا۔

پروگرام میں مرکزی انفارمیشن سیکریٹری قاضی داد محمد ریحان، مرکزی فنانس سیکریٹری ناصر بلوچ ، ہیومین رائٹس سیکریٹری ڈاکٹر ناظر بلوچ اور سینئر پارٹی ممبر ماما انور نے خطاب کیا۔

مقررین نے کہا شہید واجہ غلام محمد نے تحریک کو سیاسی اداروں کی صورت میں منظم کرکے اس تسلسل کو آگے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ دشمن شہید غلام محمد کو قتل کرنے کے باوجود آپ کی سوچ ختم نہ کرسکا۔ آج یہاں آپ کے کاروان سے وابستہ سیاسی کارکنان ہزاروں کی تعداد میں بلوچ آزادی کی تحریک کی کامیانی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا بلوچ سماج میں انقلابی تبدیلیاں آچکی ہیں ، چھوٹے بچوں سے لے کر بوڑھوں تک قومی شعور سے لیس اپنی غلامی کو محسوس کرچکے ہیں۔اب بلوچ قوم کو زیر کرنا اور اسے اپنی تحریک سے دست بردار کرنا ممکن نہیں رہا۔ مگر ہمیں ہمیشہ بیدار رہ کر اپنی تحریک کی حفاظت کرنی ہوگی۔ شہید واجہ غلام محمد نے کہا جتنی اونچائی سے گریں گے اتنا نقصان ہوگا آج ہماری تحریک اونچائی کی طرف گامزن ہے ہمیں زیادہ محتاط انداز میں آگے بڑھنا ہوگا۔

مقررین نے کہا مہم جویانہ سیاست کے نتائج دیرپا نہیں رہتے بلوچ قومی آزادی کی تحریک صبر اور استحکامت کا تقاضا کرتی ہے۔ہم نے ہر طرح کی قربانیاں دی ہیں اور قربانیوں کا یہ سلسلہ منزل تک جاری رہے گا ، ہم آزادی کی جہد سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

انھوں نے کہا ہمیں سرکش سیاسی کارکن بننے کی بجائے اداروں کے تابع رہ کر نظم و ضبط کے تحت اپنے پروگرام کو آگے بڑھانا ہے۔ ہم ماضی میں قبائلی جدوجہد کے نتائج سے آگاہ ہیں آج کی تحریک سیاسی بنیادوں پر قائم ہے اس لیے اس کی کامیابی روشن ہے۔ ہر کیڈر کو یہ سمجھنا ہوگا کہ وہ ایک شخص یا شخصیات سے بلکہ ایک نظریات سے وابستہ ہے۔