بلوچستان یونیورسٹی میں سیاسی سرگرمیوں پر پابندی عائد

311

بلوچستان یونیورسٹی میں سیاسی سرگرمیوں اور تقریبات پر پابندی عائد کردی گئی، طلبا تنظیمیوں، سیاسی رہنماوں و سماجی شخصیات کے ردعمل کا اظہار

منگل کو گورنر بلوچستان جسٹس (ر) امان اللہ یاسین زئی کے احکامات پر بلوچستان یونیورسٹی میں سیاسی سرگرمیوں اور تقریبات پر پابند عائد کر دی گئی۔ احکامات میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پابندی جامعے میں پڑھنے اور سیکھنے کا عمل برقرار رکھنے کے لئے عائد کی گئی ہے۔

اس سلسلے میں وائس چانسلر بلوچستان یو نیورسٹی کو تحریری احکامات بھی دے دیئے گئے ہیں جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ سکیورٹی کے عملے کو احکامات پر درآمد کر نے کا پابند بنائیں۔

احکامات جاری ہونے کیساتھ ہی طلبا تنظیموں اور سیاسی و سماجی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے جہاں ان احکامات کو بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل پر پردہ ڈالنے سمیت طلبا کو شعوری سرگرمیوں سے دور رکھنے کی سازش قرار دیا جارہا ہے۔

ٹی بی پی نمائندے سے بات کرتے ہوئے بلوچ اسٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی (بی ایس اے سی) کوئٹہ زون کے جنرل سیکرٹری اشفاق بلوچ کا کہنا تھا کہ ‏طلباء یونین کا وجود کسی بھی ملک اور معاشرے کے لئے خطرے کے علامت نہیں ہوتی بلکہ یہ نوجوانوں کو شعور اور علم سے آراستہ کرکے معاشرے کے ترقی کے لئے بروکار ہوتی ہے۔ طلباء سیاست اور اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانا ہر کسی کا آئینی حق ہے کسی کو بھی اس سے دستبردار کرانا آئین کو نہ ماننے کے برابر ہوتا ہے۔

اشفاق بلوچ کا کہنا ہے بلوچستان میں طلباء سیاست پر پابندی عالیہ بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل کی آواز کو دبانے کی ایک سازش ہے حکومت اور اس کے آقاؤں کو طلباء سیاست سے شاید اس لئے ڈر ہے کیونکہ یہ ہی ان کے کالے کارناموں کو دنیا کے سامنے عیاں کرتی ہے۔

ٹی بی پی نمائندے نے بی ایس اے سی رہنما سے پابندی کے ردعمل میں ان کے آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ طلباء سیاست پر پابندی کا مطلب شعوری درسگاہوں کو بند کرنا ہے ان احکامات کیخلاف ہم ‏بلوچستان بھر میں احتجاج کے تمام جمہوری طریقے اپنائینگے اور اس سے بڑھ کر عوامی مقامات پر طلباء سیاست پر آگاہی سرکلر منعقد کرینگے۔

بلوچستان اسمبلی کے رکن و بی این پی کے رہنما ثنا بلوچ نے سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ بلوچستان یونیورسٹی میں سیاسی، سماجی و معاشرتی معاملات پر پابندی سے بہتر ہے کہ یونیورسٹی کو ہی بند کردیں کیونکہ یونیورسٹی قائم ہی سیاسیات، سماجیات، تاریخ کے شعبوں پر ہے۔ منفی و خفیہ سرگرمیوں سے بہتر ہے کہ نوجوانوں کو سیاسی، سماجی معاملات پر اظہار رائے و یونین سازی کی آزادی دی جائے۔

سماجی کارکن نمرہ پرکانی نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی کے سنجیدہ مسائل کو مذاق سمجھا جارہا ہے۔ ان سے مسائل حل نہیں ہو رہے تو آئے دن ایک نئے ڈرامے کا نوٹیفیکیشن آ جاتا ہے۔ کبھی یونیفارم تو کبھی طلبہ تنظیموں پر پابندی، بلوچستان کے آنے والے لیڈروں کی پیداوار ہی یہی تنظیمیں ہیں ان تنظیموں پر پابندی نہایت شرمناک اقدام ہے۔

دریں اثنا پروگریسیو یوتھ الائنس جامعہ بلوچستان یونیٹ کی جانب سے کل بروز بدھ جامعہ کے آرٹس فیکلٹی لان میں ’’جامعہ بلوچستان میں حالیہ طلباء سیاست پر پابندی اور آئندہ کا لائحہ عمل‘‘ کے موضوع پر سٹڈی سرکل کے انعقاد کا اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس میں طالب علموں سے شرکت کے اپیل کی گئی ہے۔