بلوچستان خاموش ہے مگر اندھا نہیں – شوھاز بلوچ

430

بلوچستان خاموش ہے مگر اندھا نہیں

 تحریر : شوھاز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب اور جہاں بھی ظلم، جبر اور طاقت کا راج ہو وہاں انقلاب کا برپا ہونا اور تبدیلی کا رونما ہونا لازمی امر بن جاتے ہیں۔ آج دنیا کے مختلف ملکوں میں عوامی قومی اور طبقاتی جنگیں کسی نہ کسی صورت جاری ہیں عراق سے لیکر اسپین تک لوگ ریاستی و حکومتی بادشاہی و سامراجی ظلم کے خلاف اپنی جدوجہد جار رکھے ہوئے ہیں زندہ اور عظیم قومیں وقتی طور پر ڈر و خوف سے خاموش رہ سکتے ہیں لیکن ایسے قوموں کو دائمی خاموش رکھنے کی کوشش ایک خام خیالی ہے کسی قوم کی وقتی خاموشی کو دائمی خاموشی کبھی تصور نہیں کرنا چاہیئے مارٹن لوتھر کنگ نے کہا تھا کہ اچھے لوگوں کی خاموشی برے لوگوں کی ظلم سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے اور یہی خاموشی جب عوامی تحریک کی صورت اختیار کرتا ہے تو سامراج کی ساری ہستی کو تہس نہس کرکے چھوڑ دیتا ہے پھر دنیا کی کوئی بھی طاقت اس پر قابو پا نہیں سکتا۔ کبھی کبھی چھوٹے چھوٹے حادثات بڑی بڑی انقلابوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں یہ سامرج اور انسانیت مخالف سوچ ہے جس نے عظیم عظیم انقلابات کو جنم دیا ہے ہر انقلاب کے پیچھے کوئی نہ کوئی واقعہ ضرور ہوتا ہے، جو لوگوں کے دلوں میں موجود نفرت اور بھڑاس کو عملی جدوجہد کی صورت میں سمو دیتا ہے۔

یوں تو انقلابِ فرانس نے جنم نہیں لیا، یوں تو ہندوستان نے اپنی آزادی کی جدوجہد کا آغاز نہیں کیا، یوں تو کرد اتنی بڑی طاقت سے اپنی شناخت کی خاطر نہیں لڑ رہے، یوں تو بلوچستان کے چپے چپے میں لوگوں کے دل میں نفرت زندہ نہیں، یہ سب جبر طاقت ناانصافی اور ظلم کے شاخسانہ ہیں جب ظلم اور طاقت کا استعمال ہوگا تو لوگوں کے دلوں میں نفرت جم جائے گا اور یہی ضد و نفرت ایک دن انقلاب کی صورت اختیار کرے گا اور پھر وہ ہوگا جس کی تصور انقلاب ایران سے پہلے شاہ پہلوی نے نہیں کیا تھا، انقلاب ویتنام سے پہلے امریکہ نے نہیں کیا تھا، انقلابِ روس سے پہلے دنیا نے نہیں کیا تھا۔

جب بات بلوچستان کی آتی ہے تو اس زمین کے باسی اپنے وجود سے ہی جدوجہد کرتے آ رہے ہیں، بلوچستان دہائیوں سے وقتی انقلابی تحریکوں کا مرکز رہا ہے 1839 میں جب انگریز سامراج نے بلوچستان میں قدم جمائے تو اس کے ردعمل میں خان محراب خان نے کم وسائل کے ساتھ ہی لڑ کر شہادت کا رتبہ حاصل کیا لیکن سر تسلیم خم نہیں کیا اگر بلوچوں کی تاریخ کو ٹٹولا جائے تو ایسے ہزاراں بغاوتیں تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں چونکہ ایک زمانہ تھا جب پرامن تحریک کی وجود نہیں ہوتی تھی بلکہ طاقت ور ہی فتحیاب ہونے کا حقدار رکھتا تھا جہاں طاقت تھی فتح وہاں تھی جو زیادہ لوگوں کو قتل کرتا تھا، ہیرو وہی ہوتا تھا اور تاریخ کے پنوں میں اسی کا نام ہی لکھا جاتا تھا ایسا بھی نہیں کہ آج حالات بدلے ہیں آج بھی طاقت ہی فتحیاب ہے آج بھی طاقت کی زبان چلتی ہے جس کے پاس زیادہ طاقت ہے وہی زوراور ہے لیکن پہلے کی بہ نسبت انیسویں صدی کی جدوجہد اور تحریکوں کی بدولت آج پرامن تحریکیں بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہیں اسپین میں کیتولینا بھارت میں کشمیریوں اور یوکے میں اسکاٹش تحریک اس کی مثالیں ہیں۔ بیسویں صدی سے پہلے بلوچوں کی ساری تحریکیں مسلح رہے ہیں جنہوں نے ایرانی بادشاہوں سے لیکر مغل اور عرب جیسی بڑی فوجوں کو بھی زیر کرتے ہوئے انہیں سخت شکست سے دوچار کیا ہے بلوچ لڑنے میں ماہر مانے جاتے ہیں لیکن سائنٹیفک اور جدید دور میں شامل ہونے کے بعد بلوچوں نے پرامن جدوجہد بھی سیکھ لیا ہے کیونکہ نوجوان طبقہ اب سمجھ چکا ہے کہ لڑائی اکیلے بندوق سے نہیں لڑا جاتا بلکہ سیاسی اور پرامن طریقے سے بھی اپنے حقوق کیلئے جدوجہد کی جا سکتی ہے۔

آج بلوچستان مکمل خاموشی کا شکار ہے، ماں بچے کی گمشدگی پر خاموش، بیٹا والد کی جدائی پر خاموش، بہن بس سسکتی اور روتی ہے اس کے علاوہ وہ کچھ نہیں کر سکتی۔ دوست ڈر و خوف سے دل میں بس یادیں رکھتے ہیں اس کے علاوہ مزید کچھ کرنے سے اپنے آپ کو قاصر سمجھتے ہیں حتیٰ کہ لوگ اپنے پیاروں کی لاشوں پر رونے سے بھی ڈرتے ہیں کہ کہیں ان کے آنسو مزید کسی پیارے کی جدائی کے اسباب نہ بن جائیں کوہ چلتن کے پہاڑوں سے لیکر گوادر دریا کے لہرئیں سب خاموش ہیں
دانشور سے لیکر صحافی تک سب خاموش، شاعر سے لیکر موسیقار تک سب خاموش، اپنے اوپر ہونے والے ہر تکلیف دکھ پر خاموش لیکن ہمیں یہ بھولنا نہیں چاہیے کہ انسان جب خاموش رہتا ہے تو اس کا مطلب وہ اندھا بھی ہے آج لوگ سب کچھ دیکھ رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ پھرپھرا رہے ہیں، وہ ماؤں کو روتے ہوئے بھی دیکھ رہے ہیں، وہ بہنوں کی سسکیوں کو بھی سن رہے ہیں، وہ گوادر میں پانی کیلئے احتجاج کرتے بچوں کو بھی دیکھ رہے ہیں، وہ تربت میں گھٹن سی ماحول کا بھی مظاہرہ کر رہے ہیں، وہ لائبرریوں میں نوجوانوں کو زمین پر غلاموں کی طرح بیٹھے ہوئے پڑھتے دیکھ رہے ہیں، وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کا کس طرح معاشی و سیاسی قتل ہو رہا ہے وہ دیکھ پا رہے ہیں کہ کس طرح کبھی ہاسٹل تو کبھی ایڈمیشن کے نام پر ان کی تذلیل ہو رہی ہے۔ یہ خاموشی کبھی بھی لاوا بن کر سب کچھ تہس نہس کر سکتا ہے۔

حالیہ دنوں جامعہ بلوچستان میں ہراساں و بلیک میل کے واقعے پر تربت خضدار سمیت پورے بلوچستان کا سراپا احتجاج ہونا نہ بلکہ یونیورسٹی واقعہ پر ردعمل ہے بلکہ یہ اُس نفرت کا شاخسانہ ہے جو عرصوں سے ان کے دل میں آگ کی طرح جل رہا ہے۔ نظام کو چلانے والوں کو یہ احساس ہونا چاہیئے کہ یہ ابھی تک چھوٹا ردعمل ہے اگر ناانصافی پر مبنی یہ نظام یوں ہی جاری رہی تو شاید ردعمل مزید بھیانک ہو شاید ایسا ردعمل ہو جو انقلابِ ایران سے پہلے ایرانی شاہ کے گمان میں نہیں تھا لیکن جب نفرت عمل میں تبدیل ہو گیا تو پہلے سے رائج نظام کا وجود ہی ختم ہو گیا۔ اب بھی وقت ہے حاکمِ وقت نشے سے باہر آئیں ناانصافیوں کا روک تھام کیا جائے یونیورسٹیوں میں نہیں بلکہ بلوچستان کے کسی کونے میں بھی ہراساں کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے ورنہ تاریخ کے اوراق کب کہاں پلٹیں اس کا اندازہ میں اور آپ نہیں کر سکتے ہیں۔ وقت و حالات کو بدلتے سالوں نہیں لگتے بلکہ کبھی کبھی دنوں میں پورے نظام تبدیل ہو جاتے ہیں بلکہ کبھی گھنٹوں میں ہی سوچ بدل جاتے ہیں اس سے پہلے کہ دیر ہو اس سے پہلے کہ نفرت بھیانک کی صورت اختیار کریں اس سے پہلے کہ سوچوں میں تبدیل آئیں اس سے پہلے کہ دلوں میں موجود جزبے عملی صورت اختیار کریں اس سے پہلے یہ نوجوان پھر جرمنی، چیکوسلواکیہ اور بنگلادیش کی یادیں تازہ کریں سدھر جاؤ ہوش کے ناخن لو ورنہ تاریخ عرصوں سے اپنے آپ کو دہراتی آ رہی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔