کسی گروہ کو بے بنیاد الزامات لگانے یا عملی گزند پہنچانے کی اجازت نہیں دے سکتے ۔ بی آر اے

498

سرباز بلوچ کا تنظیم کے کمانڈر کے متعلق غیر سنجیدہ بیان اس کی ذہنی نا پختگی اور ذاتی انا کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ بیبگر بلوچ

بلوچ ریپبلکن آرمی کے ترجمان بیبگر بلوچ نے نامعلوم مقام سے میڈیا کو جاری کردہ بیان میں کہا کہ گذشتہ روز میڈیا میں سرباز بلوچ کے نام سے بی آر اے کے مرکزی کمانڈر گلزار امام کے متعلق الزامات غیرسنجیدگی، ہلڑ بازی اور ذاتی عناد کا عکس ہیں، جو سراسر بے بنیاد ہیں ، ایسے بے بنیاد الزامات کو ذرائع ابلاغ کی زینت بنانے کا مقصد محض دوسروں پر کیچڑ اچھال کر اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو جھوٹی بیساکھیوں کا سہارا دینے کے سوا کچھ نہیں۔

بیبگر بلوچ نے مزید کہا کہ مذکورہ گروہ کے غیر سیاسی رویوں، تنظیم کے اندر جمہوری و انقلابی رشتوں کو روند کر سرداری طرزِ کنٹرول کو نافذالعمل کرنے اور متطلق العنانیت جیسے رویوں کی وجہ سے گذشتہ سال بلوچ ریپبلیکن آرمی کے اکثریتی کمانڈران نے تنظیم کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی تھی اورایک نئے انقلابی و جمہوری تنظیمی ساخت و معاہدے کے تحت تنظیم کو بلوچستان میں آپریشنل کیا تھا، جس کے بعد سے مذکورہ گروہ محض میڈیا کے ذریعے وقتاً فوقتاً بے بنیاد منفی پروپیگنڈوں کا سہارہ لیکر لفاظی کی حد تک زندہ رہنا چاہتی ہے، اور بی آر اے کی بلوچستان میں آپرپیشنل کمانڈ پر کیچڑ اچھال کر خود کو خوشنام ثابت کرنا چاہتی ہے، مذکورہ گروہ سے اختلافات کا ایک بنیادی سبب ہی کسی بھی بلوچ کا ناجائز قتل، انقلابی و فوجی طریقہ کار کو رد کرکے قبائلی و فرسودہ طریقے سے کسی بلوچ کے مسئلے کا فیصلہ کرنا و کسی کیمپ کمانڈر کا ناجائز دفاع کرنا تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان مسائل کی ابتداء ہی تب ہوئی جب 2016 میں تنظیم کے علاقائی کمانڈرماما بگٹی نے شہید قمبر چاکر کے والد محترم کو ساتھیوں سمیت گرفتار کرلیا تھا، اس وقت مکران کونسل کے سربراہ گلزار امام نے اس عمل کو ناجائز قرار دے کر مذکورہ افراد کو فوراً رہا کرنے کا مطالبہ کیا تھا، مذکورہ مغویوں کو اس وقت چند پیسوں کی خاطر اپنے قید میں رکھا گیا، لیکن گلزار امام کے دباو کے باوجود مغویوں کو رہا نہیں کیا گیا جو بالآخر ایک فوجی آپریشن کے دوران تنظیم کے ایک ساتھی سمیت مغویوں کی پیاس کیوجہ سے شہادت پر منتج ہوا۔ مغویوں کے شہادت کے متعلق جب گلزار امام نے سوشل میڈیا میں آکر اپنے ٹویٹر اکاونٹ سے شہید قمبر چاکرکے والد کے متعلق ایک بیان دیا، جس میں مذکورہ کیمپ کمانڈر کی سرزنش کی گئی تھی اور لواحقین کو انصاف کی یقین دہانی کرائی گی تھی۔ لیکن اس وقت سرباز بلوچ کے ہائی کمان نے اس پاداش میں ایک سال تک گلزار امام سے اپنا تنظیمی رابطہ منقطع کر لیا اور مغویوں کے شہادت کا دفاع کرکے علاقائی کمانڈر ماما بگٹی کو سزا دینے کے بجائے تحفظ و پروٹول دیتا رہا۔

2016 کے آواخر میں آواران و کولواہ میں تنظیم کے اہم ساتھی نصیر زامر بگٹی کوتنظیم کے ہائی کمان کے ایماء پر صرف اس بنیاد پر شہید کیا گیا کہ وہ اپنے قبیلے کے بجائے مکران کے ریجنل کمانڈر کی سربراہی میں قومی فرائض انجام دینا چاہتا تھا، جب ریجنل کمانڈر نے نصیر بگٹی کے قتل میں ملوث کیمپ کمانڈر ڈاڈا بگٹی سے بازگشت کی تو ہائی کمان نے اس بڑے قومی مسئلے کو دباتے ہوئے اسے اپنا قبائلی مسئلہ قرار دیا۔ جب ڈاڈا بگٹی کو ریجنل کمانڈر کے حکم پر ناجائز قتل کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا تو تو ہائی کمان نے اپنے سرکل میں ریجنل کمانڈ گلزار امام کو معطل کردیا اور ڈاڈا بگٹی کو رہا کرواکر محفوظ مقام پر پہنچادیا۔

گذشتہ ماہ تمپ دازن میں عبداللہ ولد ولید نامی نوجوان کو سرباز بلوچ کے سرمچاروں نے ایک گھریلو مسئلے کے بنیاد پر قتل کرکے اپنے ذیلی تنظیم بی ایل ٹی کے نام پر قبول کیا، جبکہ حالیہ دنوں عبداللہ کے مسئلے پر مغربی بلوچستان میں ہونے والے بلوچی جرگے میں سرباز بلوچ کے کمانڈر واجہ ماسٹر سلیم نے بلوچی جرگے میں عبداللہ کی بے گناہی کا اعتراف کرتے ہوئے انصاف کی یقین کرائی اور آج تک عبداللہ کے قتل میں ملوث افراد سے کوئی تفتیش نہیں کی گئی ہے کیونکہ ان کو سرباز بلوچ کے نام نہاد ہائی کمان کے بااثر کمانڈر رائفل بکٹی کا آشیرباد حاصل ہے۔

بیبگر بلوچ نے محمد جان کے ناجائز قتل پر سرباز بلوچ کے بیان اور کمیٹی کی تشکیل کو جھوٹ کا پلندہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ محمد جان کو دو مہینے قبل ہی قتل کردیا گیا تھا، ایک تنظیم کیلئے اپنے سرمچار کے متعلق معلومات اکھٹا کرنے اور لواحقین کو انصاف فراہمی کیلئے یہ ایک طویل وقت تھا لیکن سرباز بلوچ کمیٹی کے نام پر اس مسئلے کو دبانا چاہتا تھا اور لواحقین کو راضی کرکے مسئلہ رفع دفع کرنا چاہتا تھا، ہمارا تنظیم اس مسئلے کے متعلق لاعلم تھا، لیکن جب انہی لوگوں نے سرباز کو خیرباد کردیا تو وہ اب اس پرانے مسئلے کو جواز بناکر اٹھا رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک کیمپ کمانڈر اپنے 20 ساتھیوں سمیت ہمارے تنظیم میں حال ہی میں شامل ہوا، جب ہمیں ناجائز قتل کے متعلق علم ہوا تو ہمارے تنظیم کے مرکزی کمانڈ کونسل نے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دے دی، جو محمد جان کے لواحقین اور متعلقہ لوگوں سے رابطے میں ہے، ہم قوم کو یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم انقلابی، فوجی و بلوچی قوانین انصاف کے رو سے مذکورہ قتل کے متعلق بغیر کسی رعایت کے تفتیش کررہے ہیں۔ اگر متعلقہ لوگ جو حالیہ دنوں تنظیم میں شامل ہوئے ہیں، ان میں سے کسی پر بھی قتل ثابت ہوتا ہے تو اسے ہرگز معاف نہیں کیا جائے گا۔ سرباز بلوچ کا ہائی کمانڈ ذاتی عناد و بغض میں اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرکے بعد میں قبائلی مسئلہ قرار دیکر رفع دفع کرنے کا مثال رکھتا ہے، اسی لیئے انکی تحقیقات، انکا بیان اور انکے پیش کردہ حقائق کی کوئی وقعت نہیں ہے اور ان پر بھروسہ نہیں کی جاسکتا۔ ہم اپنے طور پر اس مسئلے کی غیر جانبدار مکمل تحقیقات کریں گے، اس بابت تمام فریقین سے رابطہ کریں گے اور بعد میں فیصلہ کیا جائے گا۔ سرباز بلوچ کی طرف سے کمیٹی کی تشکیل جھوٹ پر مبنی ہے اور منافقت ہے، محمدجان کے مسئلے کو دبانے کیلے استاد درویش آدم کو ذمہ داری دی گئی تھی کیونکہ آدم بلوچ مسئلوں کو دبانے اور رفع دفع کرنے کی خوب صلاحیت رکھتے ہیں، ان کے کرادرسے ہم بخوبی واقف ہیں وہ انصاف کیسے فراہم کرتے ہیں۔

بیبگر بلوچ نے مزید کہا کہ سرباز بلوچ کے حالیہ بیان سے یہ لگتا ہے کہ وہ ایسے معاملات کی آڑ میں فساد کو ہَوا دیکر بردار کشی کی ایک نئی روایت قائم کرنا چاہتا ہیں اور ہمارے تنظیم سے مدبھیڑ کا ماحول پیدا کرنے کا خواہش رکھتے ہیں، جس کی ہم کسی کو اجازت نہیں دے سکتے ہیں۔ سرباز بلوچ کے دوستوں کا انہیں خیرباد کہنا اور ہمارے تنظیم کا روز بروز منظم انداز میں ابھر کر ریاست کے سامنے آنا، مذکورہ گروہ کیلئے ناگوار تجربہ ہے۔ بلوچستان کی معروضی حالات ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتے اس وقت بلوچ مزاحمتکار اپنی توانائیاں دشمن پر صَرف کرنے کے بجائے آپسی چپقلشوں، کیچڑ اچھالنے یا برادر کشی پر ضائع کرکے تحریک کو گزند پہنچائیں۔ ہماری تنظیم ایسے آپسی زبانی یا عملی ٹکراو سے احتراض برتنے کی پالیسی پر یقین رکھتی ہے اور اپنی ساری توانائیاں دشمن پر خرچ کرنا چاہتی ہے، لیکن ہم اس بات کی بھی ہرگز اجازت نہیں دے سکتے کہ کوئی بلوچیت کی آڑ میں ہم پر بے بنیاد الزامات لگاتا رہے یا عملی گزند پہنچانے کی سعی کرے۔