بلوچستان یونیورسٹی واقعے میں ایک استحصالی مائنڈ سیٹ ملوث ہے – بی این پی

465

بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام بلوچستان یونیورسٹی ہراسگی اسکینڈل کیخلاف اور اس میں ملوث ملزمان کی گرفتارں اور کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے ایک طویل احتجاجی ریلی ہفتہ کی صبح 10 بجے سریاب کسٹم سے برآمد ہوئی جو سریاب روڈ سے ہوتی ہوئی بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے دھرنے کی شکل اختیار کرگئی۔

دھرنے میں بڑی تعداد میں پارٹی کارکن، خواتین سمیت مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ ریلی کے شرکاء نے ہراسگی کے واقعات کیخلاف پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر بلوچستان یونیورسٹی اسکینڈل میں ملوث تمام ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانے، تعلیمی اداروں میں طلباء تنظیموں کی سیاسی سرگرمیوں پر عائد پابندیاں ختم کرنے، بلوچستان کی قومی روایات کی پامالی، تعلیمی اداروں سے سیکورٹی فورسز کے انخلاء کو یقینی بنانے، سیکورٹی فورسز کے نام پر بلوچستان یونیورسٹی سمیت دیگر تمام تعلیمی اداروں میں علم دشمن پالیسیوں کے خلاف نعرے درج تھے ۔

بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے دھرنے سے بی این پی کے مرکزی سیکرٹری جنرل سینیٹر ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی، مرکزی سینئر نائب صدر ملک عبدالولی کاکڑ، بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے مرکزی چیئرمین نذیر بلوچ، بلوچستان اسمبلی میں پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ملک نصیر احمد شاہوانی، مرکزی خواتین سیکرٹری و رکن بلوچستان اسمبلی زینت شاہوانی، مرکزی ہیومن رائٹس سیکرٹری موسیٰ بلوچ، مرکزی کمیٹی کے اراکین نوابزادہ حاجی میر لشکری خان رئیسانی، رکن اسمبلی شکیلہ نوید دہوار، بلوچ طلباء ایکشن کمیٹی کے مارنگ بلوچ، پاکستان ورکرز کنفیڈریشن کے صدر ماما عبدالسلام بلوچ، پاکستان ٹریڈ یونین ڈیفنس کے کامریڈ نذر محمد بلوچ و دیگر خطاب کیا۔

مقررین نے بلوچستان یونیورسٹی میں ہونے والے ہراسگی اسکینڈل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹی اسکینڈل بلوچستان کی تاریخ میں ایک انتہائی حساس مسئلہ ہے جس نے پورے بلوچستانی عوام کو شدید تشویش میں مبتلا کیا ہے یہ دلخراش واقعہ ایک گھناﺅنی سازش ہے تاکہ صوبے میں ہمارے طلباء و طالبات پر تعلیم کے دروازے بند کرکے انہیں تعلیم کے زیور سے محروم رکھ کر پسماندگی، جہالت، احساس محرومی اور ناانصافیوں کی طرف دھکیلا جاسکے کیونکہ حکمرانوں کو یہ بخوبی معلوم ہے کہ بلوچستان کے طلباء و طالبات تعلیم کے شعبہ میں دلچسپی لیتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں اور ترقی و خوشحالی تعلیم کے بغیر نامکمل ہے وہ ہماری ترقی اور خوشحالی کی جدوجہد اور راہوں کو بند کرنے کیلئے ہمارے تعلیمی اداروں کیساتھ گھناﺅنا کھیل کھیل رہے ہیں اس پر کسی بھی صورت میں خاموشی اختیار نہیں کرینگے اور نہ تعلیمی اداروں سے کنارہ کشی اختیار کرینگے قلم اور کتاب کو ہتھیار سمجھ کر تمام سازشوں کو بے نقاب کرینگے۔

مقررین نے کہا کہ اس واقعہ کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہیں آج نہیں کئی سالوں پہلے اس گھناﺅنے کھیل کو تعلیمی اداروں میں شروع کیا گیا جب سے ہمارے تعلیمی اداروں کو سیکورٹی کے نام پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حوالے کیا گیا اس دن سے آج تک ہونے والے واقعات کی کڑیاں وہاں سے ملتی ہیں اور وہ مرضی منشاء کے تحت تعلیمی ماحول کو خراب کرنے خوف وہراس پھیلا کر اپنے مذموم عزائم کو تکمیل تک پہنچانا چاہتے ہیں۔

مقررین نے کہا کہ آج کی ریلی میں بڑی تعداد میں خواتین، سفید ریش اور نوجوانوں طلباء و طالبات کی شرکت نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہاں کے عوام اپنی قومی روایات اجتماعی وقار کو کسی بھی صورت مسخ نہیں ہونے دینگے اور قومی وجود شناخت بقاء اور سلامتی کیلئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے، بی این پی کی تاریخ رہی ہے کہ جب بھی بلوچستان میں بلوچستانی عوام کو مشکلات ناانصافیوں کا سامنا ہوا اس وقت بی این پی نے ان مظالم ناانصافیوں کیخلاف سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی ہوئی اور یہاں کے عوام کو مشکل اور تکالیف و نامساعد حالات میں کبھی تنہاء نہیں چھوڑا۔

مقررین نے کہا کہ جب بھی تعلیمی اداروں میں گھناﺅنی سازشیں شروع کی گئیں اس وقت یہاں کی طلباء تنظیموں بشمول بی ایس او نے آواز بلند کرتے ہوئے ان مسائل کی طرف توجہ دلائی تو حکمرانوں نے طلباء تنظیموں کے موقف کو سننے کی بجائے نظر انداز کیا جس کے نتیجے میں آج ہمارے تمام تعلیمی ادارے شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہیں۔

مقررین نے کہا کہ آج ہم جس یونیورسٹی کے سامنے کھڑے ہوکر احتجاج کررہے ہیں یہ ادارہ ہمارے لیے مادر علمی کی حیثیت رکھتا ہے جس کی بنیاد ہمارے عظیم سیاسی رہنماء سردار عطاءاللہ خان مینگل، میر غوث بخش بزنجو، نواب خیر بخش مرحوم، میر گل خان نصیر نے رکھی اس ادارے سمیت تمام تعلیمی اداروں کی سیاسی و جمہوری انداز میں حفاظت کرینگے اور اس سے بڑھ کر اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں گے کیونکہ اپنی ترقی و خوشحالی اور قومی وجود کو برقرار رکھنے کا واحد ذریعہ تعلیم کا حصول ہے۔

مقررین نے کہا کہ بلوچستان کے قومی سیاسی ایشوز کو ہمیشہ نظر انداز اور انہیں تبدیل کرکے غیر ایشوزکا سہارا لیکر بلوچستان کو مذہبی منافرت فرقہ واریت اور دہشتگردی کی بھینٹ چڑھایا گیا تاکہ یہاں کے لوگوں کی توجہ اپنے بنیادی حقوق قومی روایات کی بحالی اور بنیادی انسانی حقوق ترقی و خوشحالی تعلیم صحت روزگار قومی واک و اختیار کی جدوجہد سے ہٹاکر حکمران آمرانہ پالیسیوں، ڈمی پارٹیوں اور عناصر کے توسط سے توسیع پسندانہ پالیسیوں کو فروغ دے سکیں اورانہوں نے ہمیشہ بلوچستان کی حقیقی قیادت اور پارٹیوں کو زیر کرنے کیلئے سیاسی کارکنوں کی قتل وغارت گیری، ٹارگٹ کلنگ، مذہبی منافرت، نسلی تعصب کا سہارا لیا اور صوبے کو پسماندگی جہالت، غربت، نفرت، تعصب اور تنگ نظری کی طرف دھکیلا۔

مقررین نے کہا کہ افسوس کیساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ سابقہ حکمرانوں نے اس سنگین جرم میں ملوث وائس چانسلر کو ان کی مدت ملازمت میں دو مرتبہ توسیع دیکر اپنے دور حکومت میں اپنے من پسند لوگوں کو نوازا، میرٹ، آئین اور قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں اگر اس وقت یہ جماعتیں نااہل کرپٹ انتظامیہ کو تحفظ نہ دیتے تو آج یونیورسٹی میں پیش آنیوالے سانحہ کا ہمیں سامنا نہ کرنا پڑتا۔

مقررین نے کہا کہ اس واقعے میں صرف وائس چانسلر نہیں بلکہ ایک مائنڈ سیٹ ملوث ہے جو بلوچستان کو تعلیمی لحاظ سے پسماندہ رکھ کر استحصالی پالیسیوں لوٹ مار کرپشن کو تحفظ دیا جارہا ہے، اس واقعے میں ملوث ملزمان کی عدم گرفتاری اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانے غفلت پر پارٹی کوہ سلمان سے لیکر جیونی کے ساحل سمیت پورے بلوچستان میں شدید انداز میں احتجاج کریگی جس کی ذمہ دار حکومت وقت ہوگی۔

مقررین نے کہا کہ اسکینڈل پر حکومت وقت کی خاموشی اور سست روی اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ وہ اس واقع میں ملوث ملزمان کو تحفظ دینے کی کوشش کررہی ہے، بلوچستان ہماری دھرتی ماں ہے اور اس دھرتی کے فرزند اپنے ننگ و ناموس بقاء شناخت وجود کے لیے بہت حساس رہے ہیں تاریخ گواہ ہے کہ انگریز کے دور سے لیکر آج تک صوبے میں آباد قوموں نے سب کچھ برداشت کیا لیکن اپنے قومی ننگ و ناموس غیرت پر کبھی آنچ نہیں آنے دی اس سلسلے میں ضرورت پڑنے پر اپنی جانوں کی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے جس کی واضح مثال 2005ء کو ڈیرہ بگٹی میں بلوچستان کے عظیم سپوت شہید نواب اکبر خان بگٹی نے ایک خاتون کی عزت کی خاطر نبرد آماء قوتوں کے سامنے سر جھکانے کی بجائے اپنی جان کی قربانی دیکر بلوچ اور بلوچستان کی قومی تاریخ کو زندہ رکھا اور ثابت کیا کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں کسی کو اپنی روایات پامال کرنے کی اجازت نہیں دینگے۔