بلوچستان میں سیاسی خلاء موجود ہے – ہونک بلوچ

231

بلوچستان میں سیاسی خلاء موجودہے

تحریر: ہونک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کی صورت حال عجیب وغر یب ہے اگر ہم چیدہ چیدہ چیزوں پر نگاہ رکھ کر بحث کر یں تو صورت حال مختلف ہو گا، لیکن اگر ہم موجودہ صورتحال پر طائرانہ نگاہ ڈال کر کچھ کہیں تو مناسب ہو گا ،اس وقت پاکستانی اسٹیبلشمٹ بلوچستان کے متعلق بہت حساس دکھائی دیتا ہے، پاکستانی حکمران اپنی روایاتی حریف بھارت کو بلیک میل کرنے کے لئے اقوام متحد ہ میں پاکستانی وزیر اعظیم عمران خان پچاس منٹ کاطویل جذباتی تقر یر کرتا ہے،اور عیجب ذہنیت کے ساتھ حتی کہ یہ عندیہ دیتا ہے، اگر کشمیر میں کرفیو ختم نہیں کی اور وہاں کے حالات کنٹر ول سے باہر جائیں گے، حالات قابو نہیں ہو ئےتو بھار ت اور پاکستان کے درمیان ایٹمی جنگ ہو سکتی ہے۔

اس بات سےعمران خان کی ذہنی قدمعلوم ہو تا ہے وہ انتہائی غیر ذمہ دار ملک کے سربراہ ہیں انسان کشی پر اترنے کی پرواہ نہیں کرتا ہے ،مگر انڈیا سمیت باقی ممالک کی خاموشی تعجب سے کم نہیں ان کو چاہئے تھا وہ اسکے خلاف عالمی عدالت میں کیس دائر کریں عالمی فورم پر اسے چیلنج کریں۔

ہم سمجھتے ہیں پاکستان اپنی اندرونی سیاسی اور معاشی مشکلات سے بچ کر لوگوں کو دوسری طرف متوجہ کرنے کی نا کام کو شش کر رہا ہے،یہ حقیقت ہے کشمیر کے متعلق بحث ہو رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب کو اس بات پر پریشانی لا حق ہورہی ہے کہ بلوچستان کی صورت حال کو کس طرح اپنے زیر کنٹرول میں لا یا جائے اور اپنی گرتی ہوئی معاشیات کو کس طرح کنٹرول کریں، اور اندورنی سیاسی بے چینی کو کس طرح قابو کر لیں وغیر ہ وغیر ہ ۔

حال ہی میں چائنا کے دورے میں عمران خان نے جو کچھ معاہدہ سی پیک کے حوالے سے کئے ہیں خطے کے سیاسی امور کے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ پاکستان اب چائنا کے ہاں گِروی رکھی ہوئی ہے، بقول انور ساجدی کے مستقبل میں اگر چائنا گوادر میں بیٹھنے میں کامیاب ہو گیا، تو چائنا گوادر میں رہا، خطے کے لئے خطرے سے خالی نہیں ہو گا۔ چائنا ایسٹ انڈیا کمپنی بنے گا ،
یہ معنی خیز بات ہے۔ سب سے اہم بات اس حکمران کے لئے بلوچستان ہو گا کیونکہ بلوچستان کی وسائل سے اپنی گرتی ہو ئی معاشیات کو آکسیجن دینے کی کو شش ہے ،کیونکہ سی پیک کے متعلق پہلے سے رائے آرہے ہیں کہ سی پیک ناکام ہو چکی ہے لیکن اس معاہدے سے یہ عندیہ ملتا ہے سی پیک کی ناکامی کے بعد مستقبل قریب میں یہاں ریاستی فوجی طاقت میں مزید اضافہ ہو تا ہے، بلوچستان میں صرف نام کے حکومت ہوتے رہتے ہیں، یہاں روز اول سے فوجی اسٹیبلشمنٹ کی رول ہے۔ وہاں یہ پالیسی اپنایا جاتا ہے کہ یہ صرف نمائشی ہیں۔ بلوچستان میں بھی آزمانے کی سیاست ہوتی رہتی ہے اب تک یہاں کوئی بااختیار حکومت آج تک قائم نہیں رہا ہے۔ صرف دنیا کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے ہر وقت نام نہاد لوگوں کی ایک ٹیم حکومت کے سیٹوں پر لائے جاتے ہیں، جب اسے جس کی ضرورت ہو اُسے آزمانے کی کوشش ہو تا ہے پھر اُسے ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتے ہیں۔

گذشتہ حکومت نیشنل پارٹی کودینے کے بعد پھر اُس کا حال سب کے سامنے واضح ہے، اب وہ نہ گھر کا ہے نہ ہی گھاٹ کا، کیونکہ بلوچستان کی پارلیمانی سیاست صرف فوج کے اشاروں پرچلتی ہے اس عمل سے ہر ایک واقف ہے ۔

پچھلے دو دہائی سے بلوچستان میں آزادی کی تحر یک میں مزاحمت نے بھی زور پکڑ ی ہے اس دوران سینکڑوں کی تعداد میں بلوچ فر زند اپنی جان کی قربانی دے چکے ہیں اب بلوچ مزاحمت نے اہم مقام حاصل کی ہے ،لیکن مزاحمتی تنظیموں میں بھی تقسیم کاری ہوئی ہے جو کافی افسوس ناک عمل ہے ۔
اس وقت اکثر یت سیاسی امورکے ماہر وں کی رائے ہے کہ یہ بلوچ کی آخری جنگ ہو گی جسے ہر حال میں کامیاب کر نا ہو گا ،کیونکہ یہ ستر کی دہا ئی نہیں ریاست نے پر وپیگنڈا کیا ہے کہ یہ کچھ چور ہیں جو ریاست کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن اُس وقت ریاستی پروپیگنڈ ا کا میاب رہی ہے لیکن اب ہر ایک بلوچ جدوجہد آزادی متعلق جانکاری رکھتا ہے اوراپنے حدتک صدا بلند کررہا ہے۔ بلوچستان کے طول و عرض میں یہ صدا موجود ہے، لیکن ہمیں بھی باخبر رہنا ہو گا ہر باشعور سیاسی عمل پر نگاہ رکھے ہو ئے ہیں صحیح اور غلط کے کہنے والے موجود ہیں۔

ستر کی دہائی میں ایک کمی موجودتھا وہ یہ کہ لوگوں کو سیاسی طور پر حقیقت سے آگاہ کرنے والے سیاسی پارٹی موجود نہیں تھے، اس جد ید تحریک میں شہید غلام محمد اپنے کاروان کے ہمراہ بلوچستان میں اس دبی ہوئی آواز کو بلند کرکے ہر ایک کو یہ یقین دلانے کی کو شش میں رہا یہ جد وجہد اپنی منزل کو طے کر کے تب تک جد وجہد جا ری رہے گا، جنہوں نے اپنے لہوسے ثابت کردیا ،لیکن اس دوران طرح طرح کےالزامات شہید پر لگائیں گے ، مگرشہید غلام محمد نے ثابت کر کے اپنے قومی آزادی کے شمع کو ہر نوجوانوں کے ہاتھوں میں روشن کرنے کی تگ دو کیا۔ جدوجہد کو کنٹرول کرنے کی ریاست کی جانب سے زور آزمائی رہی، لیکن جد وجہد کو ختم کرنے کی ریاستی خواہش صرف خواہش رہ چکا ہے اور ناکام ہو چکی ہے ۔

بلوچستان کے ایسے گاؤں نہیں کہ جہاں سے بلوچ فرزندوں نے اپنے لہو کا نظرانہ پیش نہیں کیاہو، جد وجہد شروع کر ناتو بہت بڑی بات ہے لیکن اسے اپنے منزل مقصود تک پہنچانے والے کردار کا ہونا بہت ضروری ہے ،
بلوچستان کی سیاست میں بہت کمی نظر آ رہاہے جنہیں کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے
بلوچستان میں طلبا سیاست کو وہ مقام حاصل ہے، اب سوال پیدا ہو تا ہے اس وقت وہ کس مقام میں ہے یہ سوالات وہ طلبااور انکے رہنماوں کےلئے نہیں وہ احسن طریقے سے اپنی مد د آپ سر انجام دے رہےہیں یہ سوالا ت ان بلوچ رہنماوں اور پارٹیوں کےلئے ہیں۔

کیا نوجوانوں کی ذہنی اور سیاسی تربیت میں ہم کامیاب رہے ہیں؟یہ بہت بڑی بات ہےقومی پارٹی ہونے کے باوجود اس اہم مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہوئے ہیں ،لیکن میں سمجھتا ہوں اس ناکامی کی وجہ بلوچ آزادی کی سیاست کا تقسیم کاری ہے، کیونکہ طلبا کو ہر ایک اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتے ر ہے ہیں، تر بیت سے زیادہ وضاحت کے ساتھ وقت نکل رہا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ اس لئے ہم اکثر ناکام رہے ہیں۔

ہمیں غور و فکر کرنا ہوگا پچھلے ادوار میں طلبا سیاست کو جذبات کے بنیاد پر آگے لے گئے اور انتہا تک پہنچا دیا، دیکھنا چاہئے اُس سطح پر جانے کے بعد اب خود سے سوال کریں ہم نے کیا کھویا اور کیا پا یا؟ موجو ہ وقت میں دیکھنا ہوگااسٹوڈنٹس کو سیاسی ذہنی خوراک دے رہے یانہیں؟ کیونکہ طلبا مستقبل کا اثاثہ ہو تے ہیں تو اس لیے بلوچ لیڈر شپ کو انکے بارے میں غور کرنا ہو گا۔ طلبا سمیت تمام مکتبہ فکر کے لوگوں کےلئے ایک اجتماعی پالیسی مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے ، میر ے خیال میں اس وقت کو ئی ایسی پالیسی نظر نہیں آتی، شاید میں غلط رہوں، اس وقت جوپارٹیاں موجود ہیں واقعی وہ اپنا کردار ادا کررہے ہیں یا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے شکاری کے انتطار میں ہیں ، جو ہو تا ہے دیکھا جا ئے گا وقت کا انتظار میں صرف محاذ کھولتے رہتے ہیں ،اب اس حققیت کو سمجھنا ہو گا ، کیونکہ وقت کی مناسبت سے اہم رول کا طلب ضروری ہو چکا ہے جو سیاسی بے چینی کو کنٹرول کر سکیں۔

جو لوگ صر ف وقت کا انتظار کر نے والے ہیں وقت تبدیلی لاتی ہے ، انہیں قومی سیاست نہیں کرنے چاہیے وہ کسی مذہبی جماعت میں جاکر اللہ اللہ کریں وقت کا انتطار کر یں انقلا ب کی بات نہیں کریں شاہدکچھ تبدیلی وقت کرے، کچھ سیاسی لیڈران خیر میں لیڈر نہیں کہتا ہوں، صرف انتظام کار ہو نگے ،جو قوم لیڈنہیں کرسکتےہیں وقتی طور پر انتظام کار ہیں اس لئے سیاست جمود کا شکار ہو چکا ہے۔ بحث کا گنجائش بہت کم ہو چکا ہے، سیاسی کارکن سمیت لیڈران بھی گُڈ فیت کی بنیاد پر سیاست کر رہے ہیں آنے والے وقت بہت سے مصیبتوں کا انکو سامنا کر نا پڑے گا ،کسی کی دل آزاری نہیں ہو نا چاہیے، کیا ہم اس وقت سیاسی بے چینی کو ختم کر نے میں کامیاب رہے ہیں یا نہیں؟ ہر سیاسی کارکن خود میں یہ سوال کرے، اگر نہیں تو خود کے ساتھ ساتھ وقت کے لیڈروں سے سوال کرنے کی جرات پیدا کرنا ہو گا۔

یہ سوال پڑھنے والوں کےلئے ہے، میں بی آر پی کا ذکر نہیں کر تا ہوں کیونکہ وہ ایک پارٹی ہو نہیں سکتا بلکہ میں پارٹی بھی نہیں کہہ سکتا ہوں وہ براہمدگ بگٹی صاحب کا ایک سرکل ہو سکتا ہے وہ سطحی بنیاد پر کافی ہے لیکن میں بی این ایم کے برابر نہیں کہہ سکتا ہوں لیکن بی این ایم کے قیادت کو غور کرنا ہوگا سیاسی بے چینی پر نگا ہ رکھنے سے صرف وہ خلا پُر نہیں ہو سکتا ہے بلکہ اُسے ختم کرنے کےلئے کچھ عملی کام کرکے اُس کی کمی پوری کرنا ہو گا۔

اگر ہم یہ دیکھیں گراؤنڈ کی خلا کو پُر کرنے کی کوشش بی این پی مینگل کر رہا ہے وہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور باہر کچھ کررہاہے یہ سوال پید ا ہو تا ہے واقعی وہ کچھ کررہے ہیں یا اُس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ انکی سیاست کا فلسفہ کیا ہے ؟ لیکن جمود کو ختم کرنے کی اپنی طرح ایک کوشش ہے بلو چستان کی عوام ہر اس آواز میں آواز ملانے کےلئے تیارہیں جو حق آزادی کے بارے میں ہو لیکن وقت مناسبت سے بی این پی کچھ پالیسیاں دے رہا ہے صرف موقع پر ستی کے سوا کچھ نہیں ، ایک بات ذہن میں ہر ایک بلوچ کے آتا ہے آواز اٹھاکر باہر آئیں تو اُسکی آواز کو دبانے کی کوشش فو ج پہلے کرچکا ہے،

پچھلے سال جب شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ کوئٹہ میں احتجاج شروع کر تی ہیں تو پورا کوئٹہ ان کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے لیکن جب اس عوامی ری ایکشن کو دیکھ کر بی این پی بھی پیش پیش رہتا تھا لیکن چند احتجاجوں میں لشکری رئیسانی آجاتے ہیں لیکن جلد ہی بی این پی بھی رک جاتی ہے۔

احتجاج میں جاننے کی دور کی بات ہے ریاستی ادارے ماما قدیر بلوچ کو دھمکی دیتے ہیں جو گذشتہ دس سالوں میں گرفتارشدگاں بازیابی کے لئے احتجا ج کر رہا ہے اُسے دھمکی دی جاتی ہے کہ وہ کیمپ کو بند کر یں، احتجاج ختم کر یں۔ ایک طرف موجودہ حکمران گرفتار شدہ کی بازیابی کی بات کی جاتی ہے ان کی حق میں احتجاج کرنے والے کو دھمکی ملتی ہے لیکن بی این پی مکمل خاموشی اختیار کرتی ہے نہیں معلوم اُس کی بے بسی وجہ کیا ہے؟

لیکن گرفتار شدگاں پرسیاست کرنے بی این پی کو باخبر ہو نا چاہیے کہ جتنے لوگ بازیاب ہو چکے ہیں اُس سے زیادہ بلوچ لا پتہ ہو تے جارہے ہیں اس پر خاموشی نظر آتی کو ئی ایک بلوچ فرزند سالوں بازیاب ہو تی ہے ہر ایک اپنی نام کر تی ہے لیکن جب کو ئی پھر گرفتار ہو تی ہے سب خاموش ہوتے ہیں یہاں ان لوگوں سیاست نما ئشی ہو تی ہے اُسے باقی کسی عمل سے کو ئی کام نہیں ہو تا ہے۔ کیا کچھ ہو رہا ہے وہ کیا ہو جائے آگے دیکھا جاتا ہے ،
جو کچھ ہوتا ہے اپنی جگہ لیکن میں ذاتی حوالے سے سمجھتا ہوں جو سیاسی خلا ہے اُسے اپنی فلسفے کی بنیاد پر سرداد اختر مینگل پُر کر رہے ہیں ۔لوگوں کی جو سیاسی تشنگی ہے اُسے بجھانے کی کو شش ہے ،سیاست میں سوال ہو تا ہےکیا اختر مینگل مستقبل بہتر راہ انتخاب کرسکتا ہے۔؟کیا شیخ مجیب کا کردار ادا کر تا ہےیا یہی پارلیمانی سیاست میں جڑی رہتی ہے جہاں انصاف صر ف خواب ہی ہو گا۔

دوسر ی جانب آزادی پسند دوستوں کو بھی سمجھنا ہو گا سیاسی خلا کو پُر کرنے کےلئے صرف مزاحمتی عمل کا ہونا کا فی نہیں اس کے بارے میں صاحب اختیار ضرور سوچ لیں ردانقلابی طاقتیں بلوچستان کے کونے کو نے میں موجود ہیں اس لئے جنگ کےساتھ ساتھ سیاست کی شطرنج کا استعمال بہت لازمی ہے،جس کی کمی ہم میں موجود ہےدور کرنے کی اشد ضرورت ہے کوئی اتفاق کر ے یا نہیں لیکن حقیقت تو یوں ہی ہے۔۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔