پھندے پر لٹکتا علم – ظفر رند

225

پھندے پر لٹکتا علم

تحریر: ظفر رند

دی بلوچستان پوسٹ

ماہنور بلوچ کے گھر والے تو یہ خواب دیکھ رہے تھے کہ ہماری بیٹی ڈاکٹر بن کر واپس آئیگی اور علاقے میں ہمارا نام روشن کریگی۔ اپنے محلے والوں کی مدد کریگی۔ مگر انہیں کیا خبر تھی کہ انکی بیٹی مسیحائی کی ڈگری کے بجائے لاش بن کر گھر کو لوٹے گی۔ اسکے خواب درگور ہونگے اور ہم اسکی جدائی کا ماتم کریں گے.

ماہنور بلوچ کا تعلق ضلع نوشکی سے تھی۔ وہ میڈیکل کی اسٹوڈنٹس تھی، پچھلے تین سالوں سے بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں میڈیکل کی نشست پانے کیلئے تیاری کر رہی تھی مگر وہ اپنے منزل تک پہنچ نہ پائی. ماہنور بلوچ گذشتہ تین سال سے ظلم اور نہ انصافی کا شکار ہوتی رہی۔ وہ اپنے ساتھ ہونے والے نا انصافی کے خلاف ہر سال پریس کلب کے سامنے در بدر کی ٹھوکریں کھاتی رہی مگر حکام بالا انکو انصاف دلا نہ سکیں اور مجبوراً اسے اس سال موت کا راستہ اختیار کرنا پڑا.

بلوچستان میں یہ کوئی پہلا کیس نہیں ہیکہ اسٹوڈنٹس موت کے راستے کو اپنا رہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی کافی ایسے کیس سامنے آئے ہیں مگر حکام بالا نے کبھی انکے حق میں ایکشن نہیں لیا. اسٹوڈنٹس ہمیشہ مایوس ہوکر واپس اپنے گھر لوٹ جاتے ہیں یا ماہنور بلوچ کی طرح موت کا راستہ اپناتے ہیں۔

ماہنور بلوچ کا واقعہ خودکشی نہیں ہے بلکہ یہ ایک قتل ہے۔ اور قتل کے ذمہ دار وہ انتظامیہ ہے، جس نے مختلف حربوں سے سٹوڈنٹس کے آگے رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہیں اور مجبور کر دیتے ہیں بچوں کو کہ وہ مایوس ہو کر اپنی جانیں دے دیں۔ ان قصائیوں کو اب بہرصورت ایکسپوز کریں، انکی بدکاریوں کا پردہ فاش کرنا ہوگا تاکہ آئیندہ قیمتی جانوں کو ضائع ہونا سے بچایا جا سکے۔

‏ماہنور بلوچ کی موت پر کیوں خاموشی چھائی ہوئی ہے؟ اسکے حق میں کیوں آواز نہیں اٹھایا جا رہا ہے؟ کیا اسکو زندہ رہنے کا حق نہیں تھا؟ کیا گذر رہا ہوگا آج اسکے گھر والوں کےدلوں میں۔ ماہنور تو گھر سے وعدہ کرکے نکل گئی تھی کہ وہ ڈاکٹر بن کر واپس اپنےگھر آئیگی مگر کیوں اسکا سامنا موت سے ہوا؟

آخر کب تک بلوچستان کے اسٹوڈنٹس موت کا راستہ اپناتے رہینگے۔ آج ماہنور تو کل کوئی اور بھی ہوسکتی ہے۔ اگر ظلم اور ناانصافی کا راج اسی طرح قائم رہا تو بہت سے گھر اس طرح متاثر ہونگے. بلوچ اسٹوڈنٹس اپنی امیدیں لیکر کس کے پاس جائیں کون ہے وہ مسیحا جو انہیں انصاف دلا سکے۔ انکے حق میں بات کر سکے.

ہر طرف مایوسی ہے، خاموشی ہے۔ ہر طرف منہ پہ تالے لگے ہوئے ہیں. ماہنور بلوچ کے حق میں شاید ملک بھر سے آوازیں نا اٹھیں کیونکہ ایک پسماندہ صوبے سے ہے اور یہاں یہ بہت چھوٹی سے بات ہے قتل و غارت ظلم اور نہ انصافی کا راج ہے یہاں۔ مگر ماہنور بلوچ کے ہمسفر یہ وعدہ کرتے ہیں کہ آخری سانس تک یہ جنگ لڑینگے اور اس وقت تک یہ جنگ جاری رہیگی جب تک ان انصاف نہیں ملتا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔